اگر الطاف حسین کوئی بات کریں تو وہ قابل تعزیر ہوجاتی ہے ، ڈاکٹر فاروق ستار

نجی چینل پر نشرہونے والے نواز شریف کے انٹرویو میں ہونے والی باتیں ان کاانداز اور لہجہ افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آباد میں پررابطہ کمیٹی کے دیگر اراکین کے ہمراہ پرہجو م پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 12 فروری 2016 22:34

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 فروری۔2016ء) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر محمد فاروق ستارنے کہا ہے کہ یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ پاکستان جمہوری ملک ہے ،پاکستان میں ایک دستور ہے اور پاکستان کا آئین ہر سیاسی ، مذہبی ، سماجی تنظیم ، ہر سیاسی مذہبی رہنما سیاسی کارکن اور عام شہری کو اظہار رائے کاحق دیتا ہے تو گویا پاکستان کے ہرشہری کوآرٹیکل 19کے تحت اظہار رائے کی آزادی کا پورا حق حاصل ہے ۔

انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں ، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں ، ریاستی اداروں اور ان کے سربراہوں سے سوال کیاکہ کیا واقعتا ، حقیقتاً اور عملا ایسا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی سب کو میسر ہے یا اس اظہار رائے کی آزادی دینے میں مختلف معیار قائم ہیں ؟کیوں کہ اگر کوئی بات قائد تحریک الطاف حسین کریں تو قابل پابندی ، قابل تعزیر بھی ہے اور اگر وہی بات پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کریں ، پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ اورموجودہ وزیراعظم نواز شریف کریں ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کریں ، وزیر دفاع خواجہ آصف کریں ، اسفندر یار ولی ، مولا نا فضل الرحمن یا اور دیگر فراد کریں تو ان کیلئے آئین و قانون کی تشریح مختلف ہے۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کی شام خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آبادمیں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین عارف خان ایڈووکیٹ ، شبیر قائم خانی ، زاہد منصوری ، ارشد حسن ، عبد القادر خانزادہ اور محترمہ ریحانہ نسرین کے ہمراہ پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ پریس کانفرنس میں نواز شریف ، خواجہ آصف اور دیگر کی مسلح افواج ، جرنیلوں اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور حقارت آمیز زبان پر مشتمل ویڈیو کلپس بھی صحافیوں کو دکھائے گئے ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ حکومت کے انتظام وانصرام ، پاکستان کے قانو ن وانصاف کے نظام اور پاکستان کے عدالتی معاملات میں بھی اگر اس طرح کے دوہرے معیار قائم رہیں گے اور اسی طرح کی دوعملی کا مظاہرہ ہوتا رہے گاکہ کسی ایک پاکستانی شہری کے لئے آئین وقانون کا ایک انداز سے اطلاق کیاجائے ، اسے جنگل کے قانون کا ٹریٹمنٹ دیاجائے اور دوسرا پاکستانی گویا کہ مقدس گائے ہے کہ جس کیلئے آئین وقانون کا دوسرے طریقے سے اطلاق کیاجائے تویہ کہاں کا انصاف ہے، ہم یہ سوال رکھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان دوہرے معیار، دوعملی اور اس طرح کے منافقانہ طرز عمل کا کیا اب بھی متحمل ہوسکتا ہے ؟انہوں نے کہا کہ حکومت اورریاستی اداروں پر اظہار رائے اور تنقید کرنے کی آئین و قانون میں ممانت نہیں ہے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ بڑے دانشور یہ کہتے ہیں کہ معاشرے ، ملک و قوم ، حکومتوں اور ریاستی اداروں کی اصلاح و احوال تب ہوگی جب کوئی جائز تنقید ہوگی ،اگر کسی جائز تنقید کا بھی حق نہ دیاجائے تو پھر اصلاح و احوال کے راستے کیسے قائم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونیوالے انٹرویو میں نواز شریف نے جس انداز اور لہجہ میں افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کے متعلق باتیں کی ہیں کہ وہ بالعموم پوری افواج پاکستان ، چیف آف دی آرمی اسٹاف کوشدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور کھلم کھلا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان توڑنے میں جرنیلوں کا ہاتھ ہے تو کیا یہ قابل پابندی نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعدبھی نواز شریف نے قوم، افواج پاکستان سے کوئی معافی نہیں مانگی اور اسی انٹرویو کی پوزیشن پر رہتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن قائد تحریک الطاف حسین کے بیانات کو مبینہ طو رپر متنازع بنادیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ الطاف حسین کے بیان کی وڈیو چلائیں اورآصف زرداری ، نواز شریف کا بیان چلا کر دیکھاجائے کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کے آئین و قانون کے محافظ بن کر افواج پاکستان کی توہین کی ، جرنیلوں پر پاکستان توڑنے کا الزام لگایا ، کارگل کے واقعہ کو لیکر سابق فوجی جرنیل ہو یا آج کا فوجی جرنیل ہو پاکستان کے آئین میں وہ فوجی جرنیل ہے اور تھا اور اس کیلئے جو تنقید کی گئی تو اس ہزار گناہ سخت اورحقارت آمیز بیان کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا جبکہ اگر اسی طرح کی کم وبیش کوئی بات اس کی شدت کو کم کرکے اگر الطاف حسین نے کہی تو ان کے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی ہے ، الطاف حسین پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے واحد رہنما ہے جن کی زبان بندی ہے ، جن کو کسی ادارے یا حکومت پر جائز تنقید کا بھی حق حاصل نہیں ہے وگرنہ الطاف حسین کے علاوہ دیگر رہنماؤں کے اس سے بھی زیادہ شدید تنقید پر مبنی حقارت آمیز بیانات ، انٹرویو اورریکارڈپر موجود ہیں جس کا کسی نے آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی مقدمہ قائم ہواہے جبکہ الطاف حسین کے خلاف پاکستان بھرمیں سو سے زائدغداری کے مقدمات قائم کردیے گئے جس میں گلگت بلتستان کی عدالت نے ہمیں سنے بغیر ہی فیصلہ سنایا ہوا ہے۔

ہمارے آباؤ اجداد نے ہجرت کی اور پاکستان آئے تو ہمارے لئے الگ معیار اور جو لوگ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہوئے اور عرصہ دراز سے یہیں پر تھے تو ان کیلئے آئین وقانون الگ ہے اس کا جواب پاکستان کے حکمرانوں ، منتخب جمہوری حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور پاکستان کے مقتدار اداروں کو دینا ہوگا اور اس پر اپنے تجزیئے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ آج پاکستان میں قومی ہم آہنگی، دلوں کو جوڑنے ، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی ضرورت ہے اگر ایسے وقت میں بھی ہٹ دھرمیوں سے باز نہیں آیا جائے گا تو پاکستان کی وحدت ،قومی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا کیا ہوگا ؟ آج پاکستان میں افرا تفری نظر آرہی ہے ، آج پاکستان کے عوام کا اعتماد اپنے مختلف ریاستی اورجمہوری اداروں پر مبالا یہ بات جب ہم کہ رہے ہیں تو یہ بات بھی قابل پکڑ نہ ہوجائے ،کسی کو بری نہ لگ جائے لیکن جو اس وقت حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر پابندیاں ہیں اور باقی سب مادر پدر آزاد ہیں ، ہمارے ذہن میں یہ تاثر اترتا ہے کہ ہم شاید فرزند زمین نہیں ہیں اور اس لئے ہمارے ساتھ ایسا ہورہاہے اور باقی فرزند زمین ہیں اس لیے ان کے ساتھ علیحدہ سلوک ہوتا ہے تو لہذاہمیں سوالوں کاجواب چاہئے اس کے بغیر ہم نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے سیاسی ، جمہوری ڈھانچہ عدالتی نظام ، ریاستی اداروں کی پالیسیوں اور قدام پر پاکستان کے عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے ، عوام کا اعتماد بری طرح سے متزلزل ہورہا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ آئینی، قانونی اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے کہ کیا ہم بھی برابر کے پاکستانی نہیں ہیں اورہمارے اوپر جو آئین کا اطلاق ہورہا ہے اس کے تحت ہمیں پاکستانی حیثیت اور شناخت حاصل ہے یا ہمیں پاکستانیت کے دائرے سے خارج کردیا گیا ہے؟ وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور سیاسی جماعتوں کو اس کا جواب دینا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ آج آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے جو پریس کانفرنس کی ہے اور کہا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کا نیٹ ورک ہے جس کا سلسلہ بین الاقوامی ہے جس میں اب تک القاعدہ برصغیر ، تحریک پاکستان طالبان ،لشکر جھنگوی ایک گٹھ جوڑ کے ساتھ یہاں آپریٹ کررہے ہیں تو یہ تمام حقائق قائد تحریک الطاف حسین بتاتے رہے لیکن کسی نے نہیں ماناکہ کراچی کے امن کی جڑوں کو کون کھوکھلا کررہا ہے یہاں بدامنی ، جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں سب سے بڑا فیکٹر کونسا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قائد تحریک الطاف حسین پوری قوم کی رہنمائی کررہے ہیں تاکہ بے خبری میں عوام نہ ماری جائے، داعش کی موجودگی کے بارے میں بھی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ انکاری رہی کہ پاکستان میں کوئی داعش یاطالبان نہیں لیکن متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے داعش یاطالبان دہشتگردوں کو ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کررہے ہیں ،اب ڈی جی آئی بی کا بیان بھی آگیا ہے اورعاصم باجوہ نے بھی کم از کم یہ کہہ دیا ہے کہ داعش، لشکر جھنگوی، القاعدہ اور طالبان کراچی سے کراچی اور دیگر حصوں میں اپنی سرگرمیاں کررہے ہیں تو یہ ساری باتیں ڈنکے کی چوٹ پر سب سے پہلے الطاف حسین نے کی تھی اور شاید اسی طرح کی باتوں کی پاداش میں انہیں سزا دی جارہی ہے کہ ان کے بیانات ، تصویر پر پابندی ہے اور قوم کو حقائق سے دوررکھنے کیلئے قائد کی زبان بندی کی گئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں مسلح افوا ج کے خلاف جو زہر افشانی کی ہے اسے پاکستان کے آئین وقانون کے تحت دیکھیں تو اس پر نواز شریف کو معافی مانگنی چاہے ، اگر غلطی ہوئی تو معافی مانگیں ۔ اس ملک کے استحکام کیلئے جتنی جلدی یہ فیصلے ہوں گے ملک میں استحکام ہوگا۔ انہو ں نے کہاکہ مسئلہ مسلح افواج کے خلاف پرانی نئی ویڈیو کا نہیں ہے اگر دوسروں پر آنچ نہیں آتی تو ہم کیوں 64برسوں سے شک میں جل رہے ہیں ۔