Live Updates

پنجاب اسمبلی ‘ حکومت اور اپوزیشن نے”مک مکا ؤ “کر کے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مر اعات میں اضافے کی باقاعدہ منظوری دیدی ‘فوائد زچگی پنجاب کے ترامیمی بل کو اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی تین میں سے دو ترامیم کیساتھ منظور

اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ یکم جولائی 2015ء سے نافذ العمل ہوگا‘ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس پیر تک کیلئے ملتوی اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف ہمارے ساتھ ” مک مکا “ نہ کرتی تو تنخواہوں میں اضافے کا بل منظور نہ ہوتا‘رانا ثنا ء اللہ

جمعہ 12 فروری 2016 16:32

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے”مک مکا ؤ “کر کے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مر اعات میں اضافے کی باقاعدہ منظوری دیدی جبکہ فوائد زچگی پنجاب کے ترامیمی بل کو اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی تین میں سے دو ترامیم کیساتھ منظور کر لیا ‘اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ یکم جولائی 2015ء سے نافذ العمل ہوگا‘ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔

جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت نو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 25منٹ کی تاخیر سے اسپیکراسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اللہ خان نے مسودہ قانون ( ترمیم ) فوائد زچگی پنجاب 2015پیش کیا جسے کثر ت رائے سے منظور کر لیا گیا ۔

(جاری ہے)

اس مسودہ قانون میں اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی تین میں سے دو ترامیم کو منظور کر لیاگیا ۔

منظور کردہ مسودہ قانون کے مطابق کسی ادارے کا آجز اپنے ادارے میں کسی خاتون کو اس تاریخ سے جب اس نے بچے کو جنم دیا ہو چھ ہفتوں کے دوران ملازمت پر رکھے گا نہ ہی اس کو کام پر لگائے گا ۔ آجر ملازم خاتون کو فی الفور ایک ماہ کے دورانیہ میں کوئی بھی بھاری نوعیت کا کام کرنے کونہ کہے گا یا ایسا کام جس میں زیادہ دیر تک کھڑا ہونا پڑے یا ایسا کام جس سے اس کی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ہو ۔

متوقع وضع حمل کی تاریخ سے قبل چھ ہفتوں کی مدت سے پہلے اور اس کے بچہ جنم دینے کی تاریخ کے چھ ہفتے بعد تک ہوگا۔جبکہ مسودہ قانون ( ترمیم ) قوانین عوامی نمائندگان پنجاب 2016ء متفقہ طور پرمنظور کر لیا گیا جس پر اراکین نے بھرپور ڈیسک بجاکر خوشی کا اظہار کیا۔ مسودہ قانون کی منظوری کے بعد صوبائی وزیرقانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اللہ خان نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں دو باتوں کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ اپوزیشن ہمیشہ میرے اوپر الزام دھرتے رہے ہیں کہ اراکین کو کچھ معلوم ہوتا نہیں اور وہ قانون سازی کے دوران صرف ہاتھ کھڑا کر کے منظوری دے دیتے ہیں لیکن آج اراکین کی تنخواہوں اور مراعات کے بل میں تمام اراکین (حکومتی ،اپوزیشن )کی طرف سے ہاتھ کھڑا کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا الزام درست نہیں اراکین کو سب معلوم ہوتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پارٹی کا کارکن اور ممبر ہونے کے ناطے میرے اوپر اس ایوان کا بہت زیادہ دباؤ تھا اور میری ذمہ داری بنتی تھی کہ میں اسے تسلیم کراؤں ۔اس کے لئے میں وزیر اعلیٰ کے پاس گیا اور ان کے سامنے معاملات رکھے تو انہوں ں نے اسے مسترد کر دیا اور پھر بحث و مباحثہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس پر اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لیں میں اکیلے آپکی بات نہیں مانوں گا ۔

میں اپوزیشن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس میں رضا مندی ظاہر کی اور ہماری آواز میں اپنی آواز بھی شامل کی ۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اراکین کا کہنا تھاکہ اس کا نفاذ یکم جولائی 2015ء سے ہونا چاہیے اس کے لئے دوبارہ وزیر اعلیٰ کے پاس گیا جس پر وزیر اعلیٰ نے اسے بھی نہ مانا اور میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ اپوزیشن اراکین اور انکے پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ بلائیں لیکن آپ اس میٹنگ میں نہیں جائیں گے جس کے بعد ایسا کیا گیا تو اپوزیشن نے یہاں بھی ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف اگر ہمارے ساتھ ” مک مکا “ نہ کرتے یہ معاملہ حل نہ ہوتا اور آج مسودہ قانون متفقہ پاس نہ ہوتا کیا جس پر ایوان میں بھرپور قہقے لگے اوراپوزیشن اراکین بھی مسکراہتے رہے ۔ اس دوران اسپیکر نے مک مکا کے الفاظ کارروائی سے حذف کرا دئیے ۔ اس موقع پر حکومتی رکن اسمبلی ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے کہا کہ خواتین نے یہ علم بلند کیا لیکن ہمارا شکریہ ہی ادا نہیں کیا گیا ۔

قبل ازیں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے نقطہ اعترا ض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون ہمیں ایوان میں یقین دہانی کرائیں کہ صوبے کے مختلف حصوں اور منصوبوں کیلئے مختص فنڈز میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے منتقل نہیں ہوں گے اور اسے سی پیک یا قرض سے مکمل کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک روز قبل وقفہ سوالات میں جو تفصیلات دی گئی ہیں اس کے مطابق پینے کے صاف پانی ، زراعت اور کسانوں کی ترقی سمیت مختلف شعبہ جات سے 30ارب سے زائد میٹرو بس منصوبے کے لئے منتقل کئے گئے جبکہ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ 2012-13ء کے بجٹ میں اسکے لئے11ارب روپے رکھے گئے جس سے حکومت کا سرکاری موقف سامنے آگیا ہے کہ اس پر 43ارب سے زائد خرچ ہوئے ہیں جبکہ اس میں لینڈ ایکوزیشن شامل نہیں او ریہ معاملہ 50ارب سے اوپر گیا ہے ۔

اب حکومت کے سر پر اورنج لائن ٹرین کا بھوت سوا ر ہے اور سرکاری دستاویزات کے مطابق مختلف منصوبوں کو ختم اور جاری سکیموں کو روک کر 10ارب 83کروڑ اس طرف منتقل کئے گئے ہیں ۔محمود الرشید نے کہا کہ میں بھی لاہو رکا رہائشی ہوں لیکن ہم اس ایوان مین دس کروڑ عوام کے کسٹوڈین ہیں ۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ انسان اور جانو رایک جوہڑ سے پانی پی رہے ہیں ۔

ہم عوام کے حقوق غصب نہیں ہونے دیں گے اور ایسا ہوا تو ایوان کے اندر دما دم مست قلندر اور کھڑاک ہوگا ۔ رانا ثنا اللہ خان نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر قائد حزب اختلاف مجھے اس بات کی یقین دہانی کرا دیں کہ وہ اس کے بعد رونا دھونا بند کر دیں گے میں انہیں یقین دہانی کرانے کے لئے تیار ہوں ۔ ان کی قسمت میں رونا دھونا لکھ دیا گیا ہے ،2013ء سے پہلے بھی ان کی قسمت میں رونا دھونا تھا اور یہ آج تک رو رہے ہیں۔ 2018ء اور پھر اس کے بعد 2023ء تک رونا دھونا ان کی قسمت میں لکھا ہوا ہے تو پھرمیں کیا کر سکتا ہوں۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات