15 برسوں کے دوران اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود، افغانستان اب بھی اپنے عوام کو بجلی فراہم نہیں کر سکا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 12 فروری 2016 12:33

15 برسوں کے دوران اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود، افغانستان اب بھی اپنے ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 12فروری۔2016ء) 15 برسوں کے دوران بیرونی امداد کے طور پر ملک کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود، افغانستان اب بھی اپنے عوام کو بجلی فراہم نہیں کر سکا۔بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملک اب بھی اپنے ہمسایوں تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے علاوہ ایران سے بجلی درآمد کر رہا ہے۔

افغانستان کے پاس پانی کی رسد سے پیدا ہونے والے ڈیم نہیں ہیں، جن میں سے کچھ پورے طور پر مکمل نہیں ہوئے جب کہ دیگر ابھی بن رہے ہیں، اور ملک میں عشروں سے جاری جنگ اور عدم سلامتی کی صورت حال ویسی ہی ہے۔تاہم چلنے والے ڈیم کافی نہیں ہیں جن سے سارے ملک کی بجلی کی ضروریات پوری ہوں، جس کے نتیجے میں بجلی کی درآمد سے نجات کا کوئی راستہ موجود نہیں، جس کا سبب سکیورٹی خدشات بھی ہیں۔

(جاری ہے)

دارالحکومت کابل تقریباً 50 لاکھ آبادی کا شہر ہے جسے تقریباً 600 میگاواٹ بجلی درکار ہے جس میں سے 300 میگاواٹ درآمد کی جاتی ہے جب کہ اندرونی ڈیموں سے 110 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جب کہ باقی کے لیے ابھی کوششیں کی جانی ہے۔چند ہی ہفتے قبل جب طالبان نے تاجکستان اور ازبکستان سے بجلی کی ترسیل کرنے والی کئی ایک تنصیبات کو تباہ کیا، کابل کے پاس 70 فی صد بجلی کی رسد باقی رہ گئی ہے۔

تاجکستان اور ازبکستان سے درآمد کی جانے والی بجلی بالترتیب شمالی قندوز اور بلخ کے شمالی صوبوں سے ہوتی ہوئی آتی ہے۔حالیہ ہفتوں کے دوران، حکومت نے شمالی صوبہ بغلان میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جو قندوز کے ساتھ والا علاقہ ہے، جہاں بجلی کی ترسیل میں خلل واقع ہوا۔ ڈی اے بی ایس کے سربراہ کاروباری اہل کار ہیںجو ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا کام افغانستان میں بجلی کا انتظام کرنا ہے۔

ا±نھوں نے بتایا کہ اس خلل کے نتیجے میں کابل کے مکینوں کو بجلی میسر نہیں ہے۔روزانہ کی بنیاد پر شہرِ کابل کے مکینوں کی بجلی کی ضروریات زیادہ ہیں، جنھیں صرف 30 فی صد تک بجلی ملتی ہے۔ لیکن، چونکہ تاجکستان اور ازبکستان سے بجلی کی ترسیل کی تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ہم کابل کے شہریوں کو صرف 30 فی صد تک بجلی فراہم کر پاتے ہیں۔ اگر سکیورٹی کے اقدام ہوتے تو ہم اِن تنصیبات کی مرمت چند ہی گھنٹوں میں کردیتے، جس کے لیے ہم اپنے ٹیکنیشنوں کو روانہ کردیتے۔

متعلقہ عنوان :