سائنسدانوں نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی کر لی‘کشش ثقل کی لہریں

ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکوڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں:رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 12 فروری 2016 12:17

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 12فروری۔2016ء)خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لیے جاری عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک چونکا دینے والی دریافت کی ہے۔ان کے مطابق انھوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے سپیس ٹائم میں بدلاو¿ کا مشاہدہ کیا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علمِ فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کی اس رپورٹ کو فزیکل ریویو لیٹرز نامی سائنسی رسالے میں اشاعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔لیگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسی لہروں کی تلاش کے لیے قائم لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریزی حرف ایل کی شکل کی چار کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔

(جاری ہے)

اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو متاثر کرتی ہیں لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں۔

لیگو منصوبے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی کر لی ہے۔کشش ثقل کی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکوڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لہروں کی جھلک دیکھنے کے لیے ایسی لہروں کا ملنا ضروری تھا جو کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں خارج ہوتی رہتی ہیں۔

ایسی لہریں چونکہ مادے میں سے سیدھی گزر جاتی ہیں اس لیے ان کے منبع کو چھپایا نہیں جا سکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کا بےمثال نظارہ فراہم کر سکتی ہیں جو روشنی خارج نہیں کرتیں۔