بڑی طاقتیں شام میں جنگ بندی پر متفق ہو گئی ہیں عمل ایک ہفتہ میں شروع ہو جائے گا: امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 12 فروری 2016 12:14

بڑی طاقتیں شام میں جنگ بندی پر متفق ہو گئی ہیں عمل ایک ہفتہ میں شروع ..

میونخ(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 12فروری۔2016ء) امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ شام کی صورتحال سے متعلق میونخ میں ہونے والے اجلاس میں شریک بڑی طاقتیں جنگ بندی پر متفق ہو گئی ہیں جو کہ ایک ہفتہ میں شروع ہو جائے گی صحافیوں سے گفتگو میں کیری کا کہنا تھا کہ اس کا اطلاق دہشت گرد گروپوں بشمول داعش، النصرہ فرنٹ پر نہیں ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ 17 ملکی بین الاقوامی سریئن اسپورٹ گروپ نے اتفاق کیا کہ امریکہ اور روس کی مشترکہ سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشدد میں طویل المدت کمی کا لائحہ عمل پر کام کرے گی۔تاہم انھوں نے متنبہ کیا کہ گروپ کے اجلاس میں ہونے والی پیش رفت ابھی صرف کاغذوں پر ہے اور اصل امتحان اس وقت شروع ہو گا جب تمام فریقین اپنے عزم پر قائم رہیں گے۔

(جاری ہے)

سپورٹ گروپ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو "وسیع اور تیزکرنے پر بھی اتفاق کیا جو اہم شورش زدہ علاقوں سے شروع ہو گی اور پھر اس کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیا جائے گا۔اقوام متحدہ کی ایک ٹاسک فورس امداد کی فراہمی کا نگرانی کرے گی اور ہفتہ وار بنیادوں پر اس پر پیش رفت کی رپورٹ پیش کرے گی۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ شام میں انسانی صورتحال ابتر ہو رہی ہے جسے روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

جان کیری نے کہا کہ خونریزی اور تشددکا خاتمہ لازمی ہے لیکن بالآخر ایک امن منصوبے کی ضرورت ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ سیریئن اسپورٹ گروپ نے متفقہ طور پر جنیوا مذاکرات کی جلد از جلد بحالی کا مطالبہ کیا اور ان کے بقول گروپ نے مذاکرات میں ہر ممکن سہولت کاری کے عزم کا اظہار کیا۔اقوام متحدہ کے تعاون سے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اور حزب مخالف کے گروپوں کے مابین مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو تاحال کسی ٹھوس پیش رفت کے بغیر تعطل کا شکار ہوتی آئی ہے۔

یہ مذاکرات اب 25 فروری کو جنیوا میں ہونے جا رہے ہیں لیکن اس میں فریقین کی براہ راست ملاقات نہیں ہو گی۔شام کی حزب مخالف کے ایک سینیئر رکن نے گزشتہ روز کہا تھا کہ جنگ بندی کا اسی صورت خیر مقدم کیا جائے گا اگر اس میں حالیہ روسی یلغاربھی ختم ہو۔ لیکن ان کے بقول یہ یقین دہانی بھی ضروری ہے کہ دمشق کی حکومت کے حامی بشمول ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا اور لبنان کے حزب اللہ گروپ کے جنگجو بھی اس جنگ بندی کا احترام کریں۔

شام کی مدد کے لیے بین الااقوامی وزرا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ شام میں امدادی اشیا کی رسد بڑھائی جائیں۔یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب شام کی افواج نے روس کی فضائی کارروائیوں کی مدد سے حلب میں پیش قدمی کی ہے۔اس اقدام سے باغیوں کے زیر قبضہ حلب شہر میں محصور ہزاروں شامیوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ جان کیری نے تسلیم کیا کہ جنگ بندی کا منصوبہ کافی حوصلہ افزا تھا لیکن اصل امتحان یہ ہوگا کہ شام میں موجود فریق اس کا احترام اور اس پر عمل در آمد کریں۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی الفاظ محض کاعذوں پر ہیں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ زمین پر کیا ہو گاامریکہ اور روس نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے جو شام میں برسرے پیکار گروہوں سے مشاورت کر کے میونخ میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے۔شام کے محصور علاقوں میں امدادی اشیا کی فراہمی بھی جمعے سے شروع ہو جائے گی۔یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امدادی اداروں نے خطے میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔

عالمی امدادی ایجنسی انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کا کہنا ہے کہ شام کے صوبے حلب میں جاری لڑائی میں حالیہ دنوں میں آنے والی شدت کے باعث 50 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ امداد پہنچانے کے راستے بھی بند کروا دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں پرشدید دباو ہے۔

متعلقہ عنوان :