زرعی انکم ٹیکس کی حد انڈسٹری پر عائد انکم ٹیکس کی حد کے برابر لانے کیلئے محکمہ خزانہ سے رابطہ کیا ہے، 80ہزار کی حد نا مناسب ہے ‘ وزیر زراعت

کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنیوالی بردار شوگر مل کو سیل کیا گیا ہے ،آلو کی 80 ہزار ٹن ایکسپورٹ کر چکے ہیں ‘ زراعت پر عام بحث سمیٹنے کے موقع پر خطاب ڈپٹی اسپیکر کا اپوزیشن کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر افسوس کا اظہار ،آئے روز تحریک التوائے جمع کرانے والے شیخ علاؤ الدین بھی موجود نہیں‘سردار شیر علی گورچانی

جمعرات 11 فروری 2016 20:47

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 فروری۔2016ء ) پنجاب کے وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کی حد انڈسٹری پر عائد انکم ٹیکس کی حد کے برابر لانے کے لئے محکمہ خزانہ سے رابطہ کیا ہے ،زرعی انکم ٹیکس کی 80ہزار کی حد نا مناسب ہے اسے انڈسٹری کی طرح کم سے کم چار لاکھ آمدن تک ہونا چاہیے ،زرعی لوازمات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح انتہائی کم کی ہے تاہم اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے باعث ان کومکمل ختم نہیں کر سکتے ، پاکستان جیسے ہی آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلے گا تو جی ایس ٹی ختم کر دیاجائیگا ،پاکستانی کاشتکاروں کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ سہولتیں دے رہے ہیں جس کے باعث ہماری فصلوں کی پیداوار اور معیار بھارت کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ،امسال گنے کے کاشتکاروں کو 80 فیصد ادائیگیاں مکمل ہو چکی ہیں جبکہ گزشتہ سال 90فیصد ادائیگی کی گئی ،کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنے والی بردار شوگر مل کو سیل کیا گیا ہے ،آلو کی ہماری بمپر کراپ ہوئی ہے اور 80 ہزار ٹن ایکسپورٹ کر چکے ہیں جبکہ فروری کے آخر تک روس سمیت دیگر ممالک کو بھی آلو بھجوانے کا آغاز ہو جائے گا جس سے کسان کو اسکی فصل کاصحیح معاوضہ ملے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے عام بحث میں حصہ لینے والے حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے نکات کا جواب اور حکومتی پالیسی وضع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بھارت سے ٹماٹر اور سویا بین منگوا رہے ہیں تو ہم اس کے مقابلے میں اسے پیاز، جپسم اور کھجور سمیت دیگر اشیاء بھیج رہے ہیں اور توازن تجارت پاکستان کے حق میں ہوتا جارہا ہے جو ہمارے کسانوں کی محنت کی بدولت ہے۔ پنجاب حکومت کسانوں کو سبسڈی دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور ہم نے کسانوں کو ٹیوب ویل چلانے کیلئے بجلی کی مد میں اربوں روپے کی سبسڈی دی۔

انہوں نے کہا کہ بعض ممبران نے ایوان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی بات کی تو پاکستان میں آج بھی بھارت اور بنگلہ دیش سمیت 70 ممالک کے مقابلے میں ڈیزل کا ریٹ کم ہے جیسے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے ویسے ہی پاکستان میں فوری طور پر کمی کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 2008ء سے 2011ء تک کسانوں کو 50 فیصد سبسڈی پر 30ہزار ٹریکٹرز دیئے ،ماضی میں کسی اور حکومت نے ایسا اقدام نہیں اٹھایا۔

پنجاب حکومت نے زرعی آلات کا سیٹ جو 40 ہزار روپے کا بنتا ہے کسانوں کو سبسڈی پر 20 ہزار میں دیا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ لیزر لیولنگ نہ صرف زمین کو ہموار کرتا ہے بلکہ اس سے کھادوں کے استعمال میں بھی کمی آتی ہے اور پانی کے ضیاع سے بھی بچا جاسکتا ہے اور یہ گزشتہ تین سال سے کسانوں کو 50 فیصد سبسڈی پر دیا جارہا تھا اور اب لیزر لیولنگ جو ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا آتا ہے حکومت ساڑھے چار لاکھ روپے خود برداشت کر رہی ہے جبکہ کسان کو صرف ایک لاکھ روپے دینا پڑیں گے۔

صوبائی وزیر نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کو اعلیٰ معیار کے گندم کے بیج کا ایک لاکھ تھیلے مفت تقسیم کئے جو ہر گاؤں میں کسان کو دیا گیا تاکہ فصل شاندار ہو اور آئندہ چار سے پانچ سال کے دوران پرانا بیج ختم ہو جائے گا اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو کپاس اور دیگر فصلوں کے لئے بھی یہی پروگرام شروع کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاق سے کئی مرتبہ بات کی ہے کہ کسانوں کے لئے زرعی لوازمات پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے ۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت قرضہ لیا ہوا ہے اس لئے فوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تاہم زرعی ادویات پر عائد 17فیصد جی ایس ٹی کو کم کرکے 7فیصد کیا گیا ہے اور اسی طرح زرعی مشینری پر جی ایس ٹی 43فیصد سے کرکے 9 فیصد تک کیا ہے لیکن جیسے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلیں گے تو اسے بھی ختم کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے ۔

ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت محکمہ پوٹھوہار کے علاقے میں کام کیا گیا ہے اور جہاں چلنا پھرنا مشکل تھا وہ علاقہ اب کاشت کے قابل بنا دیا گیا او ر اس وقت انگور اور زیتون کی کاشت کی جارہی ہے۔ا نہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں کم پیداوار حاصل کر رہا ہے ۔ہمارا اوسط درجے کا پروگریسو کسان بھی فی ایکڑ گندم کی پیداوار پچاس سے ساٹھ من ، گنے کی پیداوار11سو سے 12سو من اور مکئی کی پیداوار 100من حاصل کر رہا ہے ۔

ہماری پیداوار اور معیار بھارتی کسان سے بہت بہتر ہے ۔اس وقت آلو میں ہماری بمپر کراپ ہے اور 80 ہزار ٹن برآمد کر چکے ہیں اور آلو کی برآمد کا ہمارا مجموعی ہدف 13لاکھ میٹرک ٹن ہے ۔فروری کے آخر تک روس کو بھی آلو بھیجیں گے تاکہ کسان کو صحیح منافع مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ موسمی حالات، تغیر و تبدل اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے 33فیصد کپاس کی فصل خراب ہوئی ہے جس کی قیمت 1.5ارب ڈالر بنتی ہے ۔

گرین ہاؤس گیسز کے پھیلانے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 250ہے لیکن متاثرہ ممالک میں پاکستان اس فہرست میں آٹھویں یا دسویں نمبر پر ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کسان دوست لیڈر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کسانوں کو ’’کسان پیکیج‘‘ دیا تاکہ و ہ آئندہ اپنی گندم کی فصل کاشت کر سکیں ۔ کھاد پر 20ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جس سے ڈی اے پی کھاد کی بوری کی قیمت کم ہو کر 3200روپے ہو گئی ۔

صوبائی وزیر نے بتایا کہ ان کا محکمہ دیگر محکموں سے ملکر بہترین حکمت عملی سے کام کر رہا ہے اور گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنے والی شوگر ملوں کو فی الفور سیل کیا جارہا ہے جبکہ گنے کے کاشتکاروں کو 80 فیصد ادائیگیاں مکمل ہو چکی ہیں اور کنڈا مافیا کیخلاف مقدمات بھی درج کئے جارہے ہیں۔وزیر زراعت کی تقریر کے دوران پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے نقطہ اعتراض پرڈپٹی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن زراعت پر بحث رکھوا لیتی ہے لیکن افسوسناک صورتحال ہے کہ وزیر زراعت کی تقریر کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا ایک بھی رکن موجود نہیں۔

جس پر ڈپٹی اسپیکر شیر علی گورچانی نے اپوزیشن کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور ساتھ ہی حکومتی رکن اسمبلی شیخ علاؤ الدین کے بارے میں بھی ریمارکس دئیے کہ وہ بھی آئے روز تحریک التوائے کار جمع کراتے ہیں لیکن وہ بھی اس وقت ایوان میں موجود نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوان :