369کے ایوان میں صرف آٹھ اراکین کی موجودگی کے باعث صوبائی وزیر زراعت ،گنے کے کاشتکاروں کو درپیش مسائل پر عام بحث کو سمیٹ نہ سکے

اراکین اسمبلی حکومت ،اپوزیشن کی تفریق کے بغیر کاشتکار ں کے مفاد میں متحد ہوگئے ،دہرے ٹیکس کو ختم ،بھارت سے تجارت پرنظر ثانی ،زراعت و کسان کو بچانے کیلئے پارلیمانی کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی اور کالا باغ ڈیم بنانے کے مطالبات ،دیہی علاقوں میں جو لاوا پک رہا ہے اگر یہ ابل پڑا تو اسے روکنا بس سے باہر ہوگا ‘ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی عام بحث میں گفتگو اپوزیشن کا ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ ،حکومتی رکن میاں طاہر نے بھی وقفہ سوالات کے دوران احتجاجاً واک آؤٹ کیا

بدھ 10 فروری 2016 22:01

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے 369کے ایوان میں صرف آٹھ اراکین کی موجودگی کے باعث صوبائی وزیر ڈاکٹر فرخ جاوید زراعت اورگنے کے کاشتکاروں کو درپیش مسائل پر عام بحث کو سمیٹ نہ سکے اور اجلاس آج جمعرات صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا،اراکین اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کی تفریق کے بغیر کاشتکار ں کے مفاد میں متحد ہوگئے جنہوں نے تمام پالیسیوں کو کاشتکاردشمن قراردیتے ہوئے دہرے ٹیکس کو ختم ،بھارت سے تجارت پرنظر ثانی ،زراعت و کسان کو بچانے کیلئے پارلیمانی کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی اور کالا باغ ڈیم بنانے کے مطالبات کر دئیے ،اراکین کا مزید کہنا تھاکہ دیہی علاقوں میں جو لاوا پک رہا ہے اگر یہ ابل پڑا تو اسے روکنا بس سے باہر ہوگا ،اپوزیشن نے گزشتہ روز بھی احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا ،حکومتی رکن میاں طاہر نے بھی وقفہ سوالات کے دوران ایوان کی کارروائی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن طارق باجوہ نے کہا کہ شوگر ملز مافیا اتنا طاقتور ہے کہ کسی کے کہنے سننے میں نہیں ہے اس لئے سی پی آر کو پے آرڈر کا درجہ دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے ڈیوٹی فری سبزیوں اور پھلوں کی تجارت نے پاکستانی کاشتکار کی کمرتوڑ دی ہے ، بھارت سے پچھلے سال 15ارب روپے کے ٹماٹر درآمد کئے گئے ۔ بھارتی درآمدی سبزیوں اور پھلوں کے مضرِ صحت ہونے پر کوئی چیک نہیں ، اس ایوان کے تمام ارکان متحد ہوکر ایسا حل تلاش کریں کہ صوبے کی 70 فیصد کاشتکار آبادی کو کس طرح تباہ ہونے سے بچایا جائے جبکہ کسان کو زرعی ٹیکس سمیت کئی قسم کے ٹیکسوں کے ذریعے لوٹا جارہا ہے ۔

انہوں نے ایوان میں کی جانی والی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ارکان کی لچھے دار تقاریر کی آڈیو ریکارڈنگ اگر ان کے حلقہ انتخاب میں لے جا کر عوام کو سنائی جائے تو زرا تصور کریں کہ عوام ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔لوگوں نے ہمیں اپنے حق کی آواز بلند کرنے کیلئے ووٹ دیا تھا مگر ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ، ہم سب مصلحتوں کو چھوڑ کر کوئی بڑا فیصلہ کریں ہمیں اپنا حق ادا کرنا چاہیے جبکہ کسان خود کشیوں پر مجبورہو چکا ہے اس کیلئے ایسے حالات پیدا کرنیوالوں کا تعین کرنا ہوگا ورنہ دیہی علاقوں میں جو لاوا پک رہا ہے ، اگر ابل پڑا تو اسے روکنا بس سے باہر ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ ارکان کے مطالبے پر پارلیمانی کمیشن بنانے میں کیا ہرج ہے ۔جس پر سپیکر نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی بنا دیا جائے گا پہلے حکومت کا جواب بھی سن لیں ۔ جس پر انہوں نے کہا کہ کاشتکار پر رحم کھائیں ، اب وقت ہے ، کب زمیندار پر رحم کریں گے ۔حکومتی رکن آصف باجوہ نے کہا کہ حکومت کی سبسڈائز پالیسیوں سے کاشتکار کو صحیح فائدہ نہیں مل رہا۔

کا شتکاروں کیلئے زرعی آلات اور پیداواری عوامل پر براہِ راست سبسڈی دی جائے ۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت سے غیر قانونی طور پر ناقص زرعی آلات درآمد کیے جارہے ہیں جن کی روک تھام ناگزیر ہے۔ اپوزیشن رکن احسن ریاض فتیانہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کسان کو چاول اور آلو کی فصل سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے ۔چاول کی ایکسپورٹ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور زرعی اجناس کی بین الصوبائی نقل حمل پر پابندی ختم کی جائے ۔

شوگر ملوں کے مالکان کی طرف سے کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کیے جانے پر اب لوگوں نے گنا بیچنے کی بجائے کماد کو چارے کے طور پر بیچنا شروع کردیا ہے ۔ جب افغانستان کو گندم کی ضرورت تھی تو پاکستان کی حکومت نے اپنی گندم کے ذخائر افغانستان کو بیچنے کی بجائے بھارتی گندم افغانستان پہنچانے کیلئے زمینی راستہ فراہم کردیا ہمیں ایسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے ۔

حکومتی رکن ارشد ملک نے تجویز پیش کی کہ کاشتکار کو اپنی اجناس ذخیرہ کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق اوپن مارکیٹ میں مڈل کین کے واسطے کے بغیر فروخت کرنے کی اجازت اور سہولیات دی جائیں ۔اپوزیشن رکن ڈاکٹر وسیم اختر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اسپیکر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اس ایوان کے دونوں اطراف کی بے چینی دیکھیں اور ارکان کے مطالبے کے مطابق کمیشن بنائیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف گنے کے کاشکار خوار ہورہے ہیں دوسری جانب چاول کے کاشکار کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملا ،آلو کاکاشتکا ربھی خوار ہوگیا اور اب گندم کی فصل بھی آنے کے قریب ہے اس لئے حکومت فوری طور پر پہلے سے پڑی گندم کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کرے ورنہ ایک بار پھر کاشتکار لٹ جائے گا اور فائدہ صرف م مڈل میں اور سرمایہ کار اٹھائے گا ۔

ا نہوں نے سی پی آر کو چیک یا پے آرڈر کا درجہ دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم بنانے سے بھی ہم بیرون ملک سے سبزیاں اورپھل درآمد کرنے سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے اور بہتر زرعی پالیسی بنا کر بھارت کو اس میدان میں شکست بھی دے سکیں گے ۔ حکومتی رکن شیخ علاؤالدین نے کہا کہ اس ایوان کے ارکان کی تمام تقاریر ایک طرف رکھ لیں اور ان مسائل پر میری ایک تحریک التوا اٹھا کر دیکھ لیں ، میں نے بروقت حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا لیکن کاشتکار کی اشک اشوئی نہیں کی گئی اور ملز مالکان فائدے اٹھاتے ہوئے بھاگ گئے ۔

اگر حکومت کاشتکار کو اس کی ادائیگی نہیں کراسکے گی تو کیا کرے گی جبکہ اس ایوان میں حکومت کی طرف سے درست صورتحال پیش نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زرعی انڈسٹری کو خود تباہ کررہے ہیں ۔ اب تو کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں بھی شوگر ملیں لگنا شروع ہوگئی ہیں ۔ دستاویزات کے بغیر ایران سے فروٹ درآمد ہورہے ہیں اور میں ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ ملک دشمنی کی بنیاد پر امپورٹ پالیسی بنائی جاتی ہے ۔

اپوزیشن رکن صدیق خان نے حکومت کی طرف سے کسان پر عائد کئی ایک ٹیکسوں اور خاص طور پر زرعی ٹیکس و زرعی انکم ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی ٹیکس غیر قانونی ہے ۔کاشتکار کو معاشی طور پر کمزور کیا جارہا ہے ۔ ٹیکس کیلئے کاشتکار کا آمدنی کا سلیب اسی ہزار روپے مقرر کیا گیا جبکہ باقی شعبوں کیلئے یہ سلیب چار لاکھ روپے ہے جو سرا سر زیادتی اور امتیازی اقدام ہے ۔

گزشتہ روزایجنڈ ے کے مطابق بحث سمیٹی جانی تھی لیکن بحث کے اختتام تک ایوان میں صرف آٹھ ارکان رہ گئے تھے جس پر وزیر زراعت ارکان کے تحفظات کا جواب اور بحث کو سمیٹ نہ سکے اور اجلاس آج جمعرات صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا ۔قبل ازیں وقفہ سوالات میں اراکین نے اپنے سوالات کے ذریعے محکمہ صحت اور خاص طور پر ہسپتالوں میں حکومتی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران اور مشیر وزیراعلیٰ برائے صحت خواجہ سلمان رفیق بھر پور تیاری کے باوجودممبران کو مطمئن نہ کر سکے ،سوالوں کا صحیح جوان نہ ملنے پر حکومتی رکن میاں طاہر جمیل ایوان سے واک آؤٹ کرگئے جبکہ اپوزیشن بھی سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کرگئی۔ محکمہ صحت کے پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیرنے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن رکن نبیلہ حاکم علی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں ایم ایس کی تعیناتی کے لئے انٹرویو ہوگئے ہیں، جلد ہی تعیناتی کر دی جائے گی ۔

حکومتی رکن ملک ارشد نے انکشاف کیا کہ ساہیوال ہسپتال میں اس وقت 15میں سے9شعبہ قائم کئے گئے ہیں لیکن ان شعبوں کا ابھی تک کوئی ہیڈ ڈاکٹر تعینات نہیں کیا گیا ۔انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس ہسپتال میں ڈاکٹرز کی 232آسامیاں ہیں جن میں سے73خالی ہیں۔(ن) لیگ میاں طاہر نے کہا کہ فیصل آباد کارڈیالوجی ہسپتال میں سرجن اور سپشلسٹ ڈاکٹرز کی 265آسامیاں منظور ہیں جن میں سے87پر جبکہ178آسامیاں پچھلے کئی سالوں سے خالی ہیں۔

ایمر جنسی صرف18بستروں پر مشتمل ہے اور یہ ہسپتال5کروڑ لوگوں کے لئے ہے۔فیصل آباد کے حاکی مختار نامی ایک شخص نے اپنی جیب سے 50بیڈ کی نئی ایمرجنسی تعمیر کرائی اس کی مشینری اور دیگر ضروری اشیاء بھی خرید کر دیں لیکن محکمہ اس ایمر جنسی کو آپریشنل کرنے میں رکاوٹ بنا ہو اہے۔ رکن اسمبلی نے پارلیمانی سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ مجھے بتائیں کہ مذکورہ بالا آسامیاں کب پر کریں گے اور ایمرجنسی کب آپریشنل ہو گی اس کی یقین دہانی کرائی ۔

جس پر سپیکر رانا محمد اقبال خانے کہا کہ آپ اگلاس سوال کریں آپ کی بات سن لی گئی ہے عمل ہو جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ دوسال پہلے بھی انہوں نے یہی بات کی تھی لیکن میں اس پر یقین نہیں کرتا،یہ ایوان میں سب کے سامنے یقین دہانی کرائیں اور تاریخ کا اعلان کریں ۔ لیکن پارلیمانی سیکرٹری نے انہیں یقین دہانی نہ کرائی اور رکن اسمبلی میاں طاہر جمیل حتجاجاًایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ حکومت کو ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔پہلے ڈاکٹرز دیہی علاقوں میں نہیں جاتے تھے لیکن اب انہیں اچھی تنخواہ او رمراعات دی جارہی ہیں۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب رورل ہیلتھ پروگرام کے تحت بی ایچ یوز اور ٹی ایچ یوز اور ڈسپنسریاں آپریشنل ہو گئی ہیں ۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر نے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں اور افسران کی مانیٹرنگ کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ محکمے کی کارکردگی کا اندازہ لگایاجاسکے۔

اس کمیٹی میں اپوزیشن ارکان کو بھی شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو ہیلتھ اتھارٹی بنائی جارہی ہے اس میں ڈی سی او اور سرکاری افسران کی بجائے لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے تاکہ محکمہ صحت کے حوالے سے کارکردگی کو بہتر بنایاجاسکے۔ پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیر نے بتایا کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں و افسران کی مانیٹرنگ کے علاوہ وزیراعلی کی ہدایت پر قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو اپنے حلقہ میں واقعہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود مریضوں کی صحت و متعلقہ سہولیات کی مانیٹرنگ اور نشاندہی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر نوشین حامد کے سوال کا غلط جواب ملنے پر رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال جذباتی ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ آپ جتنی کہتے ہیں ہم حکومت کی تعریفیں کر دیتے ہیں لیکن زمینی حقائق بھی دیکھے جائیں۔ محکمہ کی طرف سے غلط جواب پر اپوزیشن ایوان سے احتجاجا واک آؤٹ کر گئی ۔ اجلاس میں 4تحاریک التواء کار ایوان میں پیش کی گئیں جس کے حکومت کی طرف سے ایوان میں جوابات دئیے گئے ۔