پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی پیٹرولیم مصنوعات پرقرارداد مسترد ،وفاقی حکومت کو تحسین پیش کرنیکی ترامیمی قرارداد کثرت رائے سے منظور

ڈاکٹر وسیم اختر کی مساجد کو بجلی کے بلوں میں عائد ٹی وی فیس سے مستثنیٰ قرار دینے کی قرارداد مسترد ،شیخ علاؤ الدین کی ملاں عبد القادر ،قمر الزمان کو نشان پاکستان دینے کی قرارداد وفاق کی طرف سے جواب آنے تک موخر کر دی گئی اپوزیشن کاوقفہ سوالات کے دوران پٹوار خانوں سے متعلق سوال کے جواب کو غلط قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج ،ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی

منگل 9 فروری 2016 18:45

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں چالیس روپے فی لیٹر مقرر کرنے کی قرارداد مسترد جبکہ حکومت کی طرف پانچ روپے فی لیٹر کمی پر وفاقی حکومت کو تحسین پیش کرنے کی ترامیمی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ، اپوزیشن نے قرارداد میں ترامیم کیخلاف ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر کے اسمبلی احاطے میں احتجاج کیا ، اجلاس میں 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے قومی بچوں کا قومی دن قرار دینے سمیت مفاد عامہ کی چھ قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں ، ڈاکٹر وسیم اختر کی مساجد کو بجلی کے بلوں میں عائد ٹی وی فیس سے مستثنیٰ قرار دینے کی قرارداد مستر د جبکہ شیخ علاؤ الدین کی بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں پھانسی دے کر شہید کئے جانے والے ملاں عبد القادر اور قمر الزمان کو نشان پاکستان دینے کی قرارداد کابینہ ڈویژن اوروزارت داخلہ کی طرف سے جواب آنے تک موخر کر دی گئی ، اپوزیشن نے وقفہ سوالات کے دوران پٹوار خانوں سے متعلق سوال کے جواب کو غلط قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا جس پر دونوں اطراف سے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی کی گئی۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز اپنے مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 30منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس میں غیر سرکاری ارکان کی کارروائی کا آغاز ہوتے ہی قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ سپیکر صاحب آپ نے دو مرتبہ وعدہ کیا تھاکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے میری جمع کرائی جانے والی قرارداد ایوان میں لائی جائے گی لیکن ایسا نہیں کیا جارہا ،مطالبہ ہے کہ میری قرارداد کو قواعد و ضوابط معطل کر کے ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے ۔

اس کا براہ راست عوام کو ہی فائدہ ہوگا ۔ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ بزنس ایڈوائزر کمیٹی میں طے ہوا تھا کہ جو بھی قرارداد آؤٹ آف ٹرن ایوان میں پیش کی جائے گی دونوں طرف سے اس کی کاپی ایک دوسرے کو فراہم کی جائے گی اور اس پر اتفاق رائے ہونا بھی ضروری ہے ۔ مجھے قرارداد کی کاپی دیں میں اسے دیکھ لیتا ہوں ۔ ویسے قائد حزب اختلاف اپنے لیڈر عمران خان سے مشورہ کر لیں کیونکہ انہوں نے 20روپے جبکہ یہ 40روپے لکھ دیا ہے ۔

ان کی قرارداد مفاد عامہ نہیں بلکہ مفاد دھرنا سیاست بن جاتی ہے اور ہم ان سے کیسے متفق ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا لگا بندھا پروگرام ہے کہ واک آؤٹ کرو،سیڑھیوں پر دو چار نعرے لگاؤ اور پھر گھروں میں جا کر اپنی دیگر مصروفیات نمٹاؤ ۔محمود الرشید نے کہا کہ حکومت عوام سے جگا ٹیکس اور بھتہ لے رہی ہے ۔ رانا ثنا ثنا اﷲ خان دس کروڑ عوام کی سوچ سمجھ کر مخالفت کریں ۔

ہم یہاں گگو گھوڑے نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے حکمرانوں کو ووٹ دے کر غلطی کی ہے اور اب ان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے ۔ اسی دوران متحدہ اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی جبکہ اس دوران تحریک انصاف کے اپنے اراکین اپوزیشن لیڈر کے واک آؤٹ کے فیصلے سے نالاں نظر آئے اور ایوان میں رہ کر بات کرنے کا اصرار کرتے رہے تاہم ساتھی اراکین کے ایوان سے جانے پر مذکورہ اراکین بھی بے دلی کے ساتھ ایوان سے باہر چلے گئے ۔

اسپیکر کی طرف سے کسی وزیر کو اپوزیشن کو منانے کے لئے بھجوا ئے جانے سے قبل ہی واک آؤٹ پر گئی ہوئی اپوزیشن از خود واپس آ گئی جس پر حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے اراکین نے نعرے لگائے ۔ اس دوران محمود الرشید نے وزیر قانون کو قرارداد کی کاپی بھجوائی جس پر قرارداد کو ترامیم کر کے ٹائپ ہونے کیلئے بھجوا دیاگیا ۔اجلاس کے دوران مفاد عامہ سے متعلق قراردادیں پیش کی گئیں ۔

حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین کی طرف سے ایوان میں پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ملاں عبدالقادر اور محترم قمر الزمان جنہیں پاکستان کی محبت کی وجہ سے بنگلہ دیش میں پھانسی دے کر شہید کیا گیا کو نشان پاکستان دیا جائے ۔ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ میں اس قرارداد کی مخالفت نہیں کر رہا ۔

بنگلہ دیشی حکومت کے ان اقدامات کو پوری دنیا میں پسند نہیں کیا گیا اور اسے ظالمانہ اقدام قرار دیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ وفاقی وزارت خارجہ سے متعلقہ ہے اس کے حوالے سے یکم فروری 2016ء کو کابینہ ڈویژن کو چٹھی لکھی گئی ہے ۔کیونکہ یہ حساس مسئلہ ہے اس لئے انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موقف سے آگاہ کرے اور جواب کا انتظار ہے اس لئے اسے موخر کر دیا جائے۔

شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ ان لوگوں نے کس طرح پاکستان کی محبت میں شہادتیں قبول کیں ۔ہم ان کے لئے کچھ اور نہیں تو ایک قرارداد بھی نہیں لا سکتے ۔ میں اس معاملے میں دکھی ہوں ،مصلحتوں کو چھوڑ دیں ۔ حسینہ واجد بھارت کے اشارے پر سب کچھ کر رہی ہے ۔ محمود الرشید نے کہا کہ اس معاملے پر سب افسردہ ہیں ، وفاقی حکومت کی طرف سے اپنے تہی کوئی اقدام نہیں لیا گیا ،شہادت پانے والوں کا یہ جرم ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیتے تھے ۔

سب کچھ بھارت کے دباؤ پر ہو رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے بھی اس پر بات کرتے ہوئے یہ بے ضرر قرارداد ہے اسے منظور کیا جائے ۔ تاہم اسپیکر نے وفا ق سے جواب آنے تک اسے موخر کر دیا ۔ ڈاکٹر وسیم اختر کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مساجد کو بجلی کے بلوں میں عائد ٹی وی فیس سے مستثنیٰ قرار دیاجائے ۔

وفاقی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے اس کی مخالفت کی جس پر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ اس پر سوائے افسوس کیا کہا جا سکتا ہے ۔ کسی بھی مسلک کی عبادتگاہ میں ٹی وی نہیں ہوتا ،یہ بے ضرر قرارداد ہے اسے مسترد کرنے سے اچھا پیغام نہیں جائے گا اس لئے ہاؤس کو اوپن کر دیں ۔ رانا ثنااﷲ خان نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ مساجد کا وہ حصہ جہاں پر نماز کی ادائیگی ہوتی ہے وہاں ٹی وی کا استعمال نہیں ہوتا لیکن مسجد کے ساتھ موذن اور امام کی رہائشگاہیں جو مسجد کا حصہ ہی تصور ہوتا ہے لیکن وہا ں ٹی وی چلتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ٹی وی کوئی بری جیز نہیں ہے کہ اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے بلکہ ٹی وی پر خانہ کعبہ کی لائیو زیارت ہوتی ہے ،اس کے علاوہ نعت ، قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر کے پروگرام چل رہے ہوتے ہیں اور مسجد کے کسی بھی حصے میں ان پروگراموں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ایساکرنے سے اس سے ریو نیو میں کروڑوں روپے کی کمی ہوگی اور اس حوالے سے ڈاکٹر وسیم اختر خود بھی بات کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر وسیم اختر مساجد کو ریلیف کے حوالے سے کوئی اور چیز لے آئیں ۔ جس پر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ مساجد میں کاروبار نہیں ہوتا اس لئے اسے بجلی کے بلوں میں چھوٹ دیدی جائے ۔ جس پر رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ ہسپتالوں، سکولوں اور ایسے دیگر اداروں میں بھی کاروبار نہیں ہوتا ۔مسجد ایک متبرک نام ہے اس میں الجھاؤ نہیں ہونا چاہیے ۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اس پر ایوان کی رائے لی اور قرارداد کو کثرت رائے سے مستر دکر دیاگیا ۔

میاں محمو دالرشید کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ تعلیمی اداروں کا تحفظ ممکن بنایا جائے اس قرارداد پر رانا ثنا اﷲ خان کہ طرف سے سکیورٹی کیلئے انتظامات کے حوالے سے ایوان کو آگاہی دینے کے بعد اس قراردا دکو متفقہ طور پرمنظور کر لیا گیا ۔ تحریک انصاف کے سبطین خان کی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ایوان کی رائے ہے کہ صوبہ بھر کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں اینجیو گرافی کی سہولت مہیا کی جائے اس قراردا دمیں بتدریج کے الفاظ شامل کر کے اس قراردا دکو بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ۔

تحریک انصاف ہی کی نبیلہ حاکم علی خاں کی طرف سے قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے بچوں کا قومی دن قرار دیا جائے اس قرارداد کی بھی ایوان نے متفقہ طور پرمنظور ی دیدی ۔ (ق) لیگ کے عامر سلطان چیمہ کی قرارداد ان کی ایوان میں غیر موجودگی کی وجہ سے موخر کر دی گئی ۔

سبطین خان کی صوبہ بھر میں غیر قانونی طور پر نصب سائن بورڈز کو فی الفور ہٹانے ، میاں محمود الرشید کی پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں کمی کے حکومتی فیصلہ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور ڈاکٹر وسیم اختر کی جھوٹے مقدمات اور ایف آئی آر کی روک تھام کے لئے متعلقہ قوانین میں موزوں ترامیم کی قراردایں ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیں ۔ حکمران جماعت کی خاتون رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ نادرا اور پاسپورٹ دفاتر میں خواتین کی تصاویر اتارنے کے لئے خواتین اہلکار تعینات کئے جائیں پیش کی گئی جس کی حکمران جماعت کی ہی دو خواتین راحیلہ خادم اور عظمیٰ بخاری نے مخالفت کی ۔

حنا پرویز بٹ نے کہا کہ بعض اوقات خواتین جینز ، بغیر بازو کپڑوں میں ہوتی ہیں اس لئے انہیں وہ مردوں سے تصاویر بنوانے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے ۔ جس پر عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا کہ یہ طالبان کی سوچ والی اپروچ ہے ، خواتین کے شناختی کارڈ نہ بنائے جائیں ۔ جینزپہننے والی خواتین کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا ۔ پوری دنیا میں عورتیں ہر میدان میں مردوں کا مقابلہ کر رہی ہیں ۔

عورتیں ، عورتیں کہہ کر تفریق پیدا نہ کریں ۔ رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ سپیکر صاحب اسے موخر کر دیں ہم خواتین کا آپس میں اتفاق رائے کرا دیتے ہیں جس پر اسپیکر نے قرارد اد کو موخر کر دیا ۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کیلئے قواعدکی معطلی کی تحریک پیش کی اور اپنی قرارداد پیش کی کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ پانچ روپے فی لیٹر کمی عوام سے بھونڈا مذاق ہے ۔

یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں ہونے والی کمی کے تناسب سے پیٹرولیم کی قیمت چالیس روپے فی لیٹر مقرر کی جائے تاکہ اس کمی کا فائدہ عام صارفین کو پہنچ سکے ۔ اس کے بعد وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے ترامیمی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ یہ ایوان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ پانچ روپے فی لیٹر کمی کے فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے ۔

اس حالیہ کمی سے مجموعی طور پرپیٹرولیم کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر کمی کی جا چکی ہے جس سے عام آدمی کو ریلیف ملا ہے ۔ یہ اقدام عوام دوستی کاثبوت ہے ۔ یہ ایوان امید کرتا ہے کہ وفاقی حکومت عوام کو مزید ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدام کرے گی ۔ اسپیکر کی طرف سے اس پر ووٹنگ کا آغاز کیا گیا تو اپوزیشن نے ترامیمی قرارداد پر احتجاج شروع کر دیا اور محمو دالرشید نے کہا کہ یہ چمچہ گیری ہے ،بیشک وفاق مین (ن) لیگ کی حکومت ہے لیکن اگروفاقی حکومت غلط کام کرتی ہے تو اس پر بہتری کے لئے دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کی تحسین کرنا شرمناک اور قابل مذمت ہے ۔

حکمران عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں اور انکے چہروں سے نقاب الٹ گئے ہیں ،ان کی پالیسی عوام دشمن ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 2018ء زیادہ دور نہیں عوام ان حکمرانوں کو تخت سے نیچے لے آئیں گے۔ رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سیاسی گروپ اس معاملے کو پوائنٹ سکورننگ کے لئے استعمال کر رہا ہے اور یہ منفی رویہ قابل مذمت ہے ۔

پی ٹی آئی والے کبھی کنٹینر اور کبھی چوکوں میں تماشہ کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف ان مثبت اقدامات کو کو کنفیوژکرنے کے لئے پراپیگنڈا کرنا ہے ۔ اپوزیشن قرارداد کی منظوری کے دوران ایوان سے واک آؤٹ کر گئی اور اسمبلی احاطے میں احتجاج کیا جبکہ اسپیکر نے ترامیمی قرارداد کی کثرت رائے سے منطوری دیدی ۔ قبل ازیں پارلیمانی سیکرٹری شازیہ راحیل نے نے محکمہ مال سے متعلق سوالات دئیے جبکہ محکمہ کالونیز کے پارلیمانی سیکرٹری کی علامت کے باعث ان کے وقفہ سوالات کو موخر کر دیا گیا ۔

پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ پٹواریوں کے 251میں سے 171دفاتر غیر سرکاری عمارتوں میں قائم ہیں اور حکومت ان کے کرائے کا انتظام کرتی ہے جس پر سوال کی محرک ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ محکمے نے غلط جواب دیا ہے نہ صرف پٹواری اس کا کرایہ ادا کرتے ہیں بلکہ انہوں نے نجی سٹاف بھی رکھا ہوا ہے اور تمام اخراجات کرپشن کے پیسے سے پورے کئے جاتے ہیں اور یہ پٹواریوں کی کرپشن کی بہت بڑی وجہ ہے ۔

صدیق خان نے کہا کہ بجٹ میں ان اخراجات کی کہیں اجازت اور ذکر نہیں بلکہ ان اخراجات کی کرپشن کے پیسے ادا ئیگی کی جارہی ہے ۔ نوشیں حامد نے ضمنی سوال میں کہا کس مد سے ادائیگیاں کی گئی ہیں اس کے ثبوت دئیے جائیں جس پر اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا ۔ اس دوران اپوزیشن اراکین پٹواری کلچر ختم کرو ، گو پٹواری گو جبکہ حکومتی اراکین گو عمران گو اور رو عمران رو کے نعرے لگاتے رہے۔

اپوزیشن اراکین کے مطمئن نہ ہونے پر اسپیکر نے اس سوال کو موخر کر دیا ۔پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا کام 85سے 90فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے اور 30جون2016میں یہ اسے مکمل کر لیا جائے گا۔ راناثنا اﷲ خان نے کہا کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹر ائزیشن کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے صرف 15فیصد کام باقی ہو جو عدالتی کیسز کیوجہ سے ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب ایک ماہ میں اس کا باضابط افتتاح کریں گے جس کے بعد صوبے سے پٹواری کلچر کا کاتمہ ہو جائے گا اور لوگوں کو پٹواریوں سے نجات مل جائے گی ۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس آج بدھ صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردیا ۔