بھارتی سائنس دانوں پر بھارت کے جنوبی شہر ویلور میں شہاب ثاقب گرنے سے ایک شخص کی ہلاکت کے دعوے کی تصدیق کے لیے دباﺅ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 فروری 2016 18:43

نئی دہلی(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09فروری۔2016ء) بھارتی سائنس دانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کے جنوبی شہر ویلور میں شہاب ثاقب گرنے سے ایک شخص کی ہلاکت کے دعوے کی تصدیق کریں۔ تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیہ للیتا جیہ رام نے نے کہا تھا کہ بس ڈرائیور کمراج کی موت کالج کیمپس میں شہاب ثاقب گرنے سے ہوئی تھی۔تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کے لیے مزید ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا گہرے رنگ کا پتھر شہاب ثاقب ہی ہے۔

اگر اس امر کی تصدیق ہو گئی تو ماہرین کے مطابق یہ دو سو سالوں میں شہاب ثاقب گرنے سے یہ پہلی موت ہوگی۔دمدار ستاروں سے متعلق سائنسی جریدے انٹرنیشنل کامٹ کوارٹرلی کی تیار کردہ فہرست کے مطابق سنہ 1825 میں بھارت ہی میں ایک شخص ’شہاب ثاقب گرنے‘ سے ہلاک ہوا تھا۔

(جاری ہے)

ویلور پولیس کی چیف پی کے سنتھل کماری نے بھارتی جریدے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی دسن انجینیئرنگ کالج میں ’جائے وقوعہ سے تقریباً دس گرام وزنی ایک چھوٹا پتھر برآمد ہوا ہے۔

ہم نے سائنس دانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ آ کر اس کا معائنہ کریں۔کمراج ا±س وقت کالج کیمپس میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے جب کسی چیز کے گرنے کی زوردار آواز سنائی دی تھی۔ اس کے گرنے سے زمین میں ایک بڑا گڑھا پڑگیا اور قریبی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔جیہ رام کے مطابق متاثرہ شخص ’شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔

حکومت کی جانب سے کمراج کے اہل خانہ کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اکثر شہاب ثاقب دراصل بہت باریک ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں جو زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہوئے ہوا سے رگڑ کھا کر حرارت کی شدت سے جلنے لگتے ہیں۔اس کے مقابلے پر بڑے شہابِ ثاقب زمین کی فضا میں داخل ہونے سے لے کر گرنے تک شدید حرارت کے باوجود اپنی ہیئت برقرار رکھتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :