پنجاب کی جیلوں میں قید مجرمان پر رہائی کے بعد نظر رکھنے ،ان کا مکمل ڈیٹا محفوظ بنانے کے نظام کا دائرہ صوبے بھر میں پھیلانے کا فیصلہ

منگل 9 فروری 2016 13:10

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 فروری۔2016ء) پنجاب حکومت نے مجرمان کی جیل سے رہائی کے بعد ان پر نظر رکھنے اور ان کا مکمل ڈیٹا محفوظ بنانے کے نظام کا دائرہ صوبے بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کرلیا ، اس نظام کے تحت صوبہ کی جیلوں میں موجود تمام قیدیوں کے فنگر پرنٹس، تصاویراور شناختی کارڈ سمیت ڈی این اے کا ریکارڈ ر کھا جائے گا،صوبے کی 20جیلوں میں کریمنل ریکارڈ آفس کے قیام کے ساتھ ساتھ بایومیٹرک نظام بھی نصب کر دیا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جیلوں میں بند قیدیوں کے مکمل کوائف کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے فیصلے کے تحت ابتدائی طور پر پرزن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم جولائی 2014ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔اس نظام کے تحت پنجاب کے درالحکومت لاہور کی دو جیلوں، سنٹرل جیل کوٹ لکھپت اور ڈسٹرکٹ کیمپ جیل میں کریمنل ریکارڈ آفس قائم کیے گئے تھے جس کے بعد سے یہاں تمام قیدیوں کے مجرمانہ اور عدالتی ریکارڈ سمیت ان کا بایوڈیٹا بھی رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

سپریٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ کیمپ جیل شہرام توقیر خان کے مطابق اس ریکارڈ کی مدد سے قیدیوں کی رہائی کے بعد ان پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور اس سے ان کے دوبارہ کسی جرم میں ملوث ہونے پر انھیں گرفتار کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیمپ جیل کے چار ہزار کے قریب قیدیوں کے لیے ابتدائی طور پر 6بایومیٹرک مشینیں نصب کر کے ان کے فنگر پرنٹس لیے گئے جبکہ قیدیوں کی گذشتہ زندگی کی بھی معلومات کو اکٹھا کیا گیا۔

اس کے علاوہ جیل کے عملے کے بھی فنگر پرنٹ لے کر ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔اس پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے کی تمام 37جیلوں میں یہ نظام متعارف کرنے کا فیصلہ کیا۔ان میں سے 12جیلوں میں یہ مکمل طور پر فعال ہو چکا ہے جبکہ آٹھ میں جزوی طور پر کام کر رہا ہے اور وہاں بایومیٹرک مشینوں کی تنصیب کے بعد ڈیٹا اینٹری کی جا رہی ہے۔

جن جیلوں میں یہ نظام مکمل طور پر کام کر رہا ہے ان میں سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کے علاوہ گوجرانوالہ، راولپنڈی، میانوالی اور ساہیوال کی سینٹرل جیلیں جبکہ شیخوپورہ، قصور،گجرات، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سیالکوٹ، جھنگ اور لاہور کی ضلعی جیلیں شامل ہیں۔اس کے علاوہ ملتان، بہاول پور، ڈیرہ غازی خان اور فیصل آباد کی سینٹرل جیلوں اور وہاڑی،ملتان، فیصل آباد اور سرگودھا کی ضلعی جیلوں میں یہ نظام کسی حد تک فعال ہے۔

محکمہ داخلہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ 80فیصد جرائم میں ایسے افراد ملوث پائے جاتے ہیں جو جیلوں سے رہا ہوئے ہوتے ہیں تاہم اب ان کا ریکارڈ مرتب ہونے کی وجہ سے پولیس کو انہیں قابو کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔اس نظام کے تحت صوبہ کی جیلوں میں موجود تمام قیدیوں کے فنگر پرنٹس، تصاویراور شناختی کارڈ سمیت ڈی این اے کا ریکارڈ ر کھا جائے گا جبکہ قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتیوں کا بھی بایومیٹرک ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :