شامی حکومت نے ہزاروں قیدیوں کے قتل ِعام کی ریاستی پالیسی اپنا رکھی ہے‘شام میں جاری خانے جنگی میں اب تک کم سے کم ڈھائی لاکھ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔46 لاکھ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ ساڑھے 13 لاکھ افراد ملک میں موجود ہیں جنھیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 9 فروری 2016 11:02

جنیوا(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 09 فروری۔2015ء) اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے تفتیش کاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ شامی حکومت نے ہزاروں قیدیوں کے قتل ِعام کی ریاستی پالیسی اپنا رکھی ہے۔اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انھوں نے صدر بشار الاسد پر الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق حکومت کی وفادار فورسز اور باغیوں دونوں کی جانب سے جنگی جرائم کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بیشتر قیدیوں پر تشدد کیا گیا، کئی کو اتنا مارا گیا کہ ان کی موت ہو گئی اور کئی خوراک، پانی اور طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث مر گئے۔یہ رپورٹ 2011 میں حکومت کے خلاف بغاوت کے آغاز سے اب تک کے دورانیے میں پیش آنے والے ایسے واقعات کے عینی شاہدین سے انٹرویوز کے بعد تیار کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق ہزاروں قیدی اس عرصے میں فریقین کی حراست میں مارے گئے۔تفتیش کاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس عرصے میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب شامی حکومت نے دسیوں ہزار مخالفین کو حراست میں لیا تھا۔رپورٹ نے شام میں قیدیوں سے متعلق صورتحال کو انسانی حقوق کے تحفظ کا ایک بڑا اور فوری حل طلب بحران قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بچ جانے والوں نے تشدد کی ہولناک منظر کشی کی ہے۔

شام میں جاری خانے جنگی میں اب تک کم سے کم ڈھائی لاکھ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔46 لاکھ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ ساڑھے 13 لاکھ افراد ملک میں موجود ہیں جنھیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔گو کہ اقوامِ متحدے کے تفتیش کاروں نے حکومت اور باغیوں دونوں پر ہی جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے تاہم حکومتی اداروں کی تحویل میں زیادہ قیدی ہیں۔

مارچ 2011 کے بعد سے حکومت کی جانب سے ان عام شہریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جو یا تو حزبِ مخالف کے حامی ہیں یا حکومت کی مرضی کے مطابق اس سے وفادار نہیں ہیں۔بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں شامی انٹیلیجنس کے زیرِ انتظام قید خانوں میں ہوئیں۔اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے تفتیش کار سرگیو پینھیرو کا کہنا ہے کے ’شامی حکومت نے جان بوجھ کر قید خانوں کی حالت کو اتنا بدترین رکھا کے قیدیوں کے لیے یہ جان لیوا ثابت ہو اور وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ اس سے بڑے پیمانے پر قیدیوں کی جانیں جائیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا ریاستی پالیس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کیے گئے یہ عوامل قتلِ عام کا باعث بنے جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔رپورٹ میں باغیوں پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے قید کیے گئے فوجیوں کا قتل کیا۔ ان باغیوں میں دولتِ اسلامیہ اور النصرہ سمیت دیگر گروہ بھ شامل ہیں۔دولتِ اسلامیہ کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے بڑی تعداد میں مختلف مقامات پر لوگوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہوا ہے۔ جہاں پر تشدد اور قتل معمول ہے۔یہاں پر غیر قانونی عدالتوں میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد لو گوں کو مارا جاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :