صحافیوں، میڈیا ہاؤسز کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ،پنجاب اسمبلی میں میڈیا ہاؤسز پرحملوں کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پرمنظور

کسانوں کو ادائیگی نہ کرنے والی شو گر ملوں کی چینی قبضے میں لے لی گئی،آئندہ دو ہفتوں میں مارکیٹ میں کم نرخوں پر بھی فروخت کرکے کسانوں کو بقایاجات کی ادائیگی کرنا پڑی تو کرینگے‘ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں کی ہیں لیکن تسلیم کرتا ہوں صورتحال آئیڈیل نہیں ‘ وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید

پیر 8 فروری 2016 22:08

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی نے میڈیا ہاؤسز پرحملوں کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کر لی جبکہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ صحافی اور میڈیا ہاؤسز کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ، زراعت اور گنے کے کاشتکاروں کی شکایات پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے حکومت سے زراعت اور کاشتکاروں کے مسائل کے حل کیلئے جامع پالیسی بنانے کیلئے زراعت، لائیو سٹاک، محکمہ خزانہ، خوراک اور زرعی ماہرین پر مشتمل پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو زراعت کو بچانا ہوگا،ٹی سی پی ، پاسکو اور محکمہ خوراک کو ختم کر کے مارکیٹ کو اوپن کیا جائے ،کاشتکار کو اپنی فصل کی قیمت کے تعین کا اختیار دیا جائے ۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر قانون نے ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ کسانوں کو ادائیگی نہ کرنے والی شو گر ملوں کی چینی قبضے میں لے لی گئی ہے اور آئندہ دو ہفتوں میں اگر مارکیٹ میں کم نرخوں پر بھی فروخت کرکے کسانوں کو ان کے بقایاجات کی ادائیگی کرنا پڑی تو کریں گے ،صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے ایوان میں کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں کی گئی ہیں لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ صورتحال آئیڈیل نہیں ، وزیر اعلیٰ شہباز شریف2018ء تک پنجاب کی گروتھ 8فیصد تک لیجانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 35منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے سٹی 42کے دفتر پر فائرنگ کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسپیکر سے رولز معطل کر کے مذمتی قرارداد پیش کرنے کی اجازت طلب کی جس پر صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ متفقہ قرارداد پیش کر لی جائے لیکن اس میں حال ہی میں دیگر میڈیا ہاؤسز پر ہونے والے حملوں کے بارے میں بھی الفاظ شامل کر لیتے ہیں۔

وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان کی طرف سے ایوان میں قواعد و ضوابط کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد قراردا دپیش کی گئی جس کے متن میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان پاکستانی پرنٹ و الیکٹرک میڈیا کو دہشت گردی کے خلاف جاری قومی مہم میں رائے عامہ کو ہموار کرنے اورقومی عزم کی بھرپور تائید و حمایت کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔

میڈیا ہاؤسز اوران سے منسلک صحافی اور دیگر عملہ کی طرف سے دی جانیو الی قربانیوں اورشہادتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔ میڈیا ہاؤسز پر حالیہ حملوں جس میں 7فروری 2016کو سٹی 42اور دیگر چینل جن میں دنیا ،دن ، جیو اور اے آر وائے پر فائرنگ اور کریکر حملوں کی پر زور مذمت کرتا ہے ۔ یہ ایوان میڈیا سے متعلقہ تمام افراد اور صحافیوں کو ان کے اظہار رائے پر کسی بھی منفی انداز میں اثر انداز ہونے اوران کے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے روکنے کی تمام کوششوں کی بھرپورمذمت کرتا ہے اور یہ قرار داددیتا ہے کہ میڈیا کی آزادی ایک جمہوری معاشرہ کیلئے بنیادی ضرورت ہے ۔

یہ ایوان صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ صحافی اور میڈیا ہاؤسز کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔قرارداد کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی ۔ زراعت اور گنے کے کاشتکاروں کی شکایات پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا کہ قومی مجموعی پیداوار میں زراعت کا 21فیصد حصہ ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا وژن ہے کہ 2018ء میں پنجاب کی گروتھ تک لیجائیں گے اور اسی لئے محکمہ زراعت، لائیو سٹاک سمیت دیگر محکموں کو اس کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کو 90فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے جبکہ اس سال 80فیصد ادائیگی ہو چکی ہے ۔ لیکن میں پھر بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آئیڈیل صورتحال نہیں۔ دو چار مچھلیاں ہیں جو سارے پانی کو گندا کر رہی ہیں ۔ ہم نے ان کی چینی روک کر بیچی ہے اور معاملات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا ، ملائشیاء کو آلو کی ایکسپورٹ شروع ہو چکی ہے جبکہ روس کو 15فروری کے بعد اسکی ایکسپورٹ کا آغاز ہو جائے گا ۔

وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کی مصروفیت کے باعث ایوان میں گنے کے کاشتکاروں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے عام بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ 2014-15 میں 133ارب کا گنا شوگر ملوں کو فراہم کیا گیا اور اب تک 132ارب 47کروڑ کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں جو 99فیصد بنتا ہے اور یہ اطمیان بخش ہے ایک ارب کے بقایا جات ہیں۔ جن شوگر ملوں کے ذمہ بقایا جات ہیں ان کی چینی کا سٹاک اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور اسکی فروخت کر کے کاشتکاروں کو رقم کی ادائیگی کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں قیمت نہ ملنے کی وجہ سے یہ چینی فروخت نہیں کی گئی لیکن آئندہ پندرہ روز میں چاہے مارکیٹ میں کم نرخوں پر فروخت کرنا پڑی تو کاشتکاروں کو ادائیگی کریں گے ۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ موجودہ سیزن ابھی جاری ہے اور ابھی تک 67ارب کا گنا ملز کو سپلائی ہوا ہے اور کاشتکاروں کو اس کی پندرہ روز بعد ادائیگی ہوتی ہے ۔ابھی تک 54ارب کی ادائیگی ہو چکی ہے جو 87.7فیصد بنتی ہے اور کرشنگ سیزن اپریل تک چلتا ہے اور کوشش ہو گی کہ کاشتکاروں کے بقایات جات ساتھ ساتھ ادا ہوں ۔

محمود الرشید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے پنجاب کے اندر کاشتکار بد ترین حالات کا شکار ہے ۔ پہلے بھی کسان تنظیموں نے احتجاج کیا اور اب دوبارہ 11یا 12فروری کو دوبارہ احتجاج کے لئے لاہور آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی زراعت کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں اور ایڈ ہاک ازم کی پالیسی چل رہی ہے ۔ حکومت کی سپورٹ پرائس پر عملدآمد کی رٹ ہی نہیں ہے جسکی وجہ سے کسان اپنی فصل اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہے ۔

ایوان میں وزراء نے جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں وہ حقائق کے منافی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ہر سال 250ارب کا ڈیزل زراعت کے لئے استعمال ہو رہاہے لیکن حکومت عالمی منڈی کے مطابق قیمت وصول کرنے کی بجائے کسان سے 40فیصد بھتہ لے رہی ہے۔ زراعت کی مد میں اربوں روپے سرنڈ کر کے میٹرو ٹرین منصوبے پر لگا دئیے گئے ۔ 340ارب کا کسان پیکج دیا گیا لیکن 12ارب روپے اشتہاری مہم پر خرچ کر دئیے گئے ۔

ان مسائل کے حل کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حکومت، اپوزیشن، زرعی ماہرین کو شامل کیا جائے ۔ صدیق خان نے کہا کہ پارلیمانی نہیں بلکہ سٹیئرنگ کمیٹی بنائی جائے۔چوہدری محمد اقبال نے کہا کہ محمو الرشید جو ڈراؤنی تصویر پیش کر رہے ہیں ایسا نہیں ہے ۔ پنجاب میں 41لاکھ ایکڑ رقبے کو زیر کاشت بنایا جا سکتا ہے ۔ حکومتی رکن اسمبلی کرم الٰہی بندیال نے کہا کہ میٹرو بس پر تو سبسڈی دی جارہی ہے کسان کو بجلی اور ڈیزل پر بھی سبسڈی دی جائے ۔

سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ کاشتکار اپنی فصل کا معاوضہ نہ ملنے کی وجہ کھڑی فصل جلا دیتا ہے ۔ ان مسائل کے حل کے لئے ایوان کی خصوصی کمیٹی بنائی جائے ۔ حکومتی رکن میاں محمد رفیق نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد آنے والی سیاسی اور فوجی حکومت کاشتکار کی کسمپرسی اور نوحے کی ذمہ دار ہیں۔ کاشتکار کو اپنی فصل کی قیمت کا خو دتعین کرنے کا اختیار دینا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ یہاں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں وہ ٹریڈرز فرینڈلی رہی ہیں اور کاشتکار کش پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ اگر کاشتکار کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا تو ہماری ریڑھ کی ہڈ ی قائم نہیں رہ سکتی ۔ تحریک انصاف کے احمد خان بھچر نے کہا کہ زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتاہے لیکن یہ اتنی بار فریکچر ہو چکی ہے کہ ا س کے مزید آپریشن نہیں ہو سکتے ۔

آج کسان کی حالت قابل رحم ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجلی اور ڈیزل پر سبسڈی دی جائے ۔ کسان سے ماہانہ بل کی بجائے سہ ماہی اور ششماہی بلنگ کی جائے ۔ حکومتی رکن رانا منور غوث نے کہا کہ کین کمشنر شوگر ملوں کے آگے بے بس ہے ،کاشتکاروں کی حالت زار کی بہتری کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔(ق) لیگ کے وقاص حسن موکل نے کہا کہ کاشتکاوں کے مسائل کے حل اور زراعت کی بہتری کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے ۔

ٹیکسٹائل کے لئے تو تین روپے فی یونٹ کمی کا نوٹیفکیشن آ جاتا ہے لیکن کسان کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ اس موقع پر رانا ثنا اﷲ خان نے کہاکہ ایوان میں قائمہ کمیٹی برائے زراعت موجو ہے اگر اس میں مزید لوگوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں تو کر لیا جائے جو غورو فکر کرے لیکن اسپیکر اس کمیٹی سے ٹائم فریم طے کر کے دو ماہ میں رپورٹ مانگیں کیونکہ یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت کی پوری پوری مدت گزر جاتی ہے لیکن رپورٹس نہیں آتیں ۔

یہ کمیٹی اس طبقے کی بہتری کے لئے دو ماہ میں حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے ۔حکومتی رکن وارث کلو نے کہا کہ مختلف محکمے کاشتکار کو گِدھوں کی طرح کھانے آ جاتے ہیں۔ ٹی سی پی ، پاسکو اور محکمہ خوراک کو ختم کیا جائے اور مارکیٹ کو اوپن کیا جائے ۔ ان معاملا ت کے حل کے لئے کمیٹی سے کام نہیں چلے گا بلکہ پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جس میں زراعت، لائیو سٹاک، محکمہ خزانہ، خوراک اور زرعی ماہرین کو شامل کیاجائے کیونکہ اگر ملک کو بچانا ہے تو زراعت کو بچانا ہوگا۔

پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے کہا کہ بعض قائمہ کمیٹیوں کا ایک سال میں ایک اجلاس بھی نہیں ہوا ۔ یہاں ماڈل ٹاؤن میں فیصلے اور وہیں سے عملدرآمد کے احکامات جاری ہوتے ہیں ۔ حکومتی رکن احمد خان بلوچ نے کہا کہ وزیر اعظم کے کسان پیکج کوبیورو کریسی نے ناکام کر دیا ہے ۔ اس موقع پر اراکین کی طرف سے کافی تعداد کے رہ جانے کے باعث صوبائی وزیر قانون نے اسپیکر کو تجویز دی کہ آج منگل کو غیر سرکاری ارکان کا دن ہے اس لئے بدھ کے روز باقی رہ جانے والے اراکین کوبحث کی اجازت کے بعد اسے سمیٹ لیا جائے جس کے بعد اجلاس آج منگل صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردیاگیا ۔

قبل ازیں صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم نے محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ سکیورٹی معاملات اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔ حالیہ اجلاس کے دوران بھی سکیورٹی کی وجہ سے تعمیراتی کام رکا ہوا ہے ۔ سوال کے محرک ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ اجلاس صبح ہوتا ہے رات میں کام ہو سکتا ہے ۔

صوبائی وزیر یقین دہانی کرائیں کہ اجلاس کے بعد تین شفٹوں میں کام ہوگا جس پر اسپیکر نے کہا کہ زیر تعمیر اسمبلی کی عمارت کا کام سیشن کے دوران نہیں ہوسکتا۔ میں محکمے سے کہوں گا کہ اجلاس کے بعد اگر دو شفٹوں میں کام ہو سکتا ہے تو اسے یقینی بنایا جائے ۔صوبائی وزیر برائے مواصلات و تعمیرات میاں تنویر اسلم نے کہا کہ اسمبلی کی ایڈیشنل اور ایکسٹیشن عمارت کو مکمل کرنے کے لئے 742.028ملین روپے مزید درکار ہیں۔

رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے ایوان میں انکشاف کیا کہ لاہور فیصل آباس براستہ جڑانوالہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے چلنا مشکل ہے لیکن محکمہ نے سوال نمبر2012کے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ یہ سڑک باکل ٹھیک ہے پیچ ورک مکمل ہے کہیں سے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ۔ اسی طرح رکن اسمبلی نے سردار وقاص حسن موکل نے لاہور قصور روڈ فیروز پور روڈ کے بارے میں ایوان کو بتایا کہ یہ سڑک بھی متعدد مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ محکمہ نے سوال نمبر2741کے جواب میں لکھا کہ یہ سڑک بھی مکمل ٹھیک ہے اور اس پر کام مکمل ہو چکا ہے اس کا کوئی کام باقی نہیں ہے۔

محکمہ کی طرف سے غلط جوابات پر صوبائی وزیر نے کہا کہ محکمے کی طرف سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ ذمہ داری بنتی ہے لیکن میں اسے دیکھوں گا اگر اراکین کے تحفظات درست ہوئے تو ذمہ داروں کا ضرور احتساب کیا جائے گا۔