سکائپ ، واٹس ایپ ، فیس بک ، ای میل ، ایس ایم ایس ، ٹیلی فون کال اورسوشل میڈیا ایپس کے ذریعے دی گئی طلاق درست ہے ٗ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

طلاق کے بعد عدت پوری ہونے پر خاتون دوسری شادی کر سکتی ہے ٗ محمد عبد الراہل قریشی

پیر 8 فروری 2016 19:00

سکائپ ، واٹس ایپ ، فیس بک ، ای میل ، ایس ایم ایس ، ٹیلی فون کال اورسوشل ..

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 فروری۔2016ء) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے قراردیاہے کہ سکائپ ، واٹس ایپ ، فیس بک ، ای میل ، ایس ایم ایس ، ٹیلی فون کال اور دیگرسوشل میڈیا ایپس کے ذریعے دی گئی طلاق درست ہے اور اس سے علیحدگی ہوجاتی ہے ۔بورڈ نے سپریم کورٹ کے ان ریمارکس پر اظہار ناپسندیدگی کیا جن میں مسلم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے اسلامی قوانین کے مطالعہ کی تجویز دی گئی تھی ۔

بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ کے سینئر رکن اور ترجمان محمد عبدالراہل قریشی نے کہاکہ عدالتی حکم قانونی طورپر مناسب نہیں کیونکہ مسلم لاء مذہب کا لازمی حصہ ہے ، مذہبی آزادی بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 25میں بھی دی گئی ۔طلاق کے بعد خاتون کے حقوق سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوسری شادی کرسکتی ہے ، طلاق کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کرسکتی یا پھر ایک کمرے میں لاک کردیں ، ہمارے ججوں اور دیگر لوگوں کے ذہن میں غلط فہمی ہے ۔

(جاری ہے)

قریشی نے بتایاکہ ایک یا تین طلاقیں اکٹھی دینے میں کوئی فرق نہیں ، ایک یا تین طلاقوں کی مدت کے بعد خاتون آزاد ہے ، اس میں کوئی فرق نہیں تاہم اگر تین طلاقیں ایک ہی دفعہ دینے کے بعد مرد کو محسوس ہوتاہے کہ اس نے غلطی سے انتہائی اقدام اٹھایاہے تو وہ عدت کی مدت کے دوران اپنی اہلیہ کو واپس لاسکتاہے ۔ سوالات کے جوابات میں عبدالراہل قریشی کاکہناتھاکہ اگر کوئی خاتون علیحدگی چاہتی ہے تو وہ خلع کیلئے رجوع کرسکتی ہے تاہم طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس ہے ، خاتون کو طلاق کی وجہ بتاناہوگی تاہم یہاں اسلامی عدالتیں نہیں ہیں اور امام سے اس ضمن میں رابطہ کیاجاسکتاہے ۔

سوشل میڈیا کے ذریعے طلاق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ مرد کو اپنی اہلیہ کو طلاق دینے کا اختیار ہے اور اس کیلئے صرف وہ چیز چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کو شناخت کرسکیں ۔بتایاگیاکہ عدالت نے حالیہ دنوں میں ایک آئینی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ طلاق پر خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق 1986ء میں راجیو گاندھی حکومت کے دور میں پاس ہونیوالے ایکٹ کا جائزہ لیاجاسکے ۔عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ ہندو فیملی لاء میں 50کی دہائی میں ترامیم ہوئیں لیکن مسلم پرسنل لاء تقریباً ویساہی رہا۔

متعلقہ عنوان :