پنجاب یونیورسٹی میں میری مادرِ علمی، میری یاداشتیں کے موضوع پر پانچویں تقریب

اساتذہ کا اپنے پیشے سے متعلق نظریہ درست نہیں، آئی ای آر پہلے 1961 میں لارنس روڈ پر قائم ہوا، ڈاکٹر نسیم شوکت پنجاب یونیورسٹی ادارہ تعلیم و تحقیق کی پہلی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نسیم شوکت کا الرازی ہال میں خطاب

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعرات 4 فروری 2016 20:15

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 04 فروری۔2015ء) پنجاب یونیورسٹی ادارہ تعلیم و تحقیق کی پہلی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نسیم شوکت نے کہا ہے کہ اساتذہ کا اپنے پیشے سے متعلق نظریہ درست نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سپاہی کی عزت ہو جاتی ہے مگر ان کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ تعلیم و تحقیق 1961 میں پہلے لارنس روڈ پر جہاں اب زینت لیبارٹری موجودہے وہاں قائم ہوا اور 1962 میں اسے نیو کیمپس میں شفٹ کیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر مجاہد کامران کی ہدایت پر یونیورسٹی کی زبانی تاریخ مرتب کرنے کے سلسلے کی الرازی ہال میں منعقدہ پانچویں تقریب سے کیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران،ڈین آف ایجوکیشن پروفیسر ڈاکٹر ممتاز اختر، پروفیسر ڈاکٹر عابد حسین چوہدری، اکیڈمک سٹاف ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محبوب حسین، ڈاکٹر نعمانہ امجد،چیف لائبریرین حسیب احمد پراچہ، مختلف صدورِ شعبہ جات ، فیکلٹی ممبران اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ریٹائرڈ ڈاکٹر نسیم شوکت نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل سکولوں میں مسلمان طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا تھا اور مسلمان طالبات پہلی پوزیشنز حاصل کرتی تھیں تو ہندو استانیاں ہمیں کہتی تھیں کہ آپ کیوں پڑھتی ہیں جبکہ ہندو طالبات کو کہتی تھیں کہ آپ پڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریہ بالکل حقائق پر مبنی تھا جس کا ہمیں اس دور میں تجربہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قائداعظم سے ملنے کے لئے ہم چھٹی کیا کرتے تھے تو ہمیں ان سے ڈانٹ پڑتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ تعلیم و تحقیق کو 1961 میں انہوں نے جوائن کیااور یہ شعبہ میکڈونلڈ لٹن نے بنایا تھا۔ تب امریکہ نے مختلف ٹریننگ پروگرام شروع کر رکھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے وقت میں ایم اے میں کتابیں نہیں ہوتی تھیں صرف لیکچرز پر انحصار کیا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کئی مواقعوں پر انہیں شعبہ جاتی سیاست کا بھی سامنا کرنا پڑا اور دس سال تک انہیں پروفیسر نہ بننے دیا گیا۔ لیکن بعد میں وہ شعبہ کی ڈین بھی بن گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیچنگ کے شعبے میں بہت ترقی ہے اور خلوص کے ساتھ علم بانٹ کر اساتذہ اپنی عزت خود بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ناموں کو یاد رکھنے کے لئے مختلف طلباء و طالبات کی نشانی حاضری رجسٹر پر لکھ لیتی تھیں اور حاضری رجسٹرہمیشہ چھپا کر رکھتی تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر مجاہد کامران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اپنی یاداشتیں آج کی نسل تک پہنچانے کا یہ بہترین موقع ہے ۔