شام کا بحران : 9ارب ڈالرجمع کرنے کے لیے لندن میں ڈونرزکانفرنس‘ برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر آنگیلا میرکل سمیت 70 رہنما شریک ہوں گے

شام اور خطے کے دیگر ممالک میں پناہ گزین بچوں کو ایک ’گمشدہ نسل‘ بننے سے بچانے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر درکار ہیں:یونیسف

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعرات 4 فروری 2016 17:54

لندن( اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 04 فروری۔2015ء ) شام میں پانچ برس سے جاری لڑائی سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لیے 9 ارب ڈالر کی رقم جمع کرنے کا مقصد لیے عالمی رہنما لندن میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔یہ اس مقصد کے لیے بلائی جانے والی چوتھی کانفرنس ہے اور اس میں برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر آنگیلا میرکل سمیت 70 رہنما شریک ہوں گے۔

اس کانفرنس کی میزبانی اقوامِ متحدہ، برطانیہ، جرمنی، ناروے اور کویت مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام کے تنازع پر سوئس شہر جینیوا میں ہونے والے مذاکرات معطل کر دیے گئے ہیں۔مذاکرات کی معطلی کا اعلان شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی سٹیفن ڈی مستورا نے کیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے دوران برطانوی وزیرِ اعظم اپنے ملک کی طرف سے مزید ایک ارب 20 کروڑ پاؤنڈ کی امداد کا وعدہ کریں گے۔اس کانفرنس میں نو ارب ڈالر یا چھ ارب 20 کروڑ پاؤنڈ کی جو ریکارڈ رقم جمع کرنے کی کوشش کی جائے گی ان میں سے پانچ ارب تیس کروڑ پاؤنڈ درجنوں امدادی اداروں کی طرف سے جاری کی گئی مالی اپیلیں اور اندازاً 90 کروڑ پاؤنڈ اس خطے میں پناہ گزینوں کو سہارا دینے والے ممالک کی طرف سے طلب کی گئی رقوم ہیں۔

ماضی میں شام کے لیے منعقد کی جانے والی ڈونر کانفرنسیں زیادہ کامیاب نہیں رہیں اور 2015 میں اقوامِ متحدہ کی امدادی اپیل کے نتیجے میں جن دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی جس رقم کی فراہمی کے وعدے کیے گئے تھے اس میں سے صرف 43 فیصد رقم ہی دی گئی ہے۔یورپی یونین کے حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ تنظیم دو ارب یورو کی امداد کا اعلان کرے گی۔

یورپی یونین نے ایک برس قبل کویت میں اس سلسلے کی گذشتہ کانفرنس میں ایک ارب دس کروڑ یورو کی مالی مدد کا وعدہ کیا تھا۔کانفرنس کا ایک مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ 2017 تک بے گھر ہونے والے تمام بچوں کو سکول میں داخلہ دلوایا جا سکے۔بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف نے ایک بیان میں کہا تھا شام اور خطے کے دیگر ممالک میں پناہ گزین بچوں کو ایک ’گمشدہ نسل‘ بننے سے بچانے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔

شام میں جاری خانہ جنگی سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر شامی شہری ترکی، اردن اور لبنان جیسے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں۔اقوامِ متحدہ کے پاس جن 46 لاکھ شامی پناہ گزینوں کا اندارج ہے، ان میں سے چھ لاکھ 35 ہزار اردن میں موجود ہیں اور کانفرنس سے قبل اردن کے شاہ عبداﷲ نے کہا تھا کہ ان کے ملک کے لیے اس بحران سے نمٹنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔خیال رہے کہ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔جبکہ صدر بشار الاسد کی افواج اور باغیوں کے درمیان جنگ کیعلاوہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں کے باعث ایک کروڑ کے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :