شام میں قیام امن مذاکرات 25 فروری تک ملتوی

امن مذاکرات کے لیے امریکا اور روس سمیت عالمی طاقتوں کی مدد درکا ر ہے، اقوام متحدہ

جمعرات 4 فروری 2016 12:09

جینیوا/ واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔04 فروری۔2016ء) اقوام متحدہ نے شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات پچیس فروری تک ملتوی کر دیے۔شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا نے جنیوا میں شامی حکومت اور اپوزیشن کے وفود سے الگ الگ ملاقات میں انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تاہم بات چیت میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

شامی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اسٹیفن ڈی مستورا نے کہا کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے تاہم اس کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 25 فروری کو مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں امن مذاکرات کے لیے امریکا اور روس سمیت عالمی طاقتوں کی فوری مدد کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ادھر امریکہ نے شامی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملک میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل نہیں چاہتی بلکہ اپنے اتحادی ملک روس کی مدد سے یہ معاملہ عسکری طور پر حل کرنا چاہ رہی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کی جانب سے یہ بیان اقوامِ متحدہ کی جانب سے شام کے تنازع پر سوئس شہر جینیوا میں ہونے والے مذاکرات کی معطلی کے بعد سامنے آیا ہے۔ واشنگٹن میں جان کیری کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’روسی مدد سے شامی حکومت کی افواج کے حزبِ مخالف کے کنٹرول والے علاقوں پر مسلسل حملے اور حکومتی افواج کی جانب سے لاکھوں شہریوں کا محاصرہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ نیت سیاسی حل کی جگہ ایک عسکری حل کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ وقت اب گزر گیا کہ وہ (شامی حکومت اور اس کے حامی) شام کے بحران کے پرامن حل کے بارے میں اپنی نیت کے تناظر میں عالمی برادری کا اعتماد بحال کر سکیں۔‘جان کیری نے کہا کہ ’(بات چیت میں) اس تعطل کے دوران دنیا کو چاہیے کہ وہ ایک ہی سمت میں آگے بڑھے جو کہ شامی عوام کی مشکلات اور وہاں جاری جارحیت کا خاتمہ ہے تاکہ یہ تنازع مزید جاری رہنے کی بجائے ختم ہو سکے۔

‘ادھر شامی حزبِ مخالف کے مذاکرات کار بسما کدمانی نے کہا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو باغیوں پر شامی اور روسی بمباری کے جواب میں صرف بیان بازی تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔واشنگٹن میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بمباری کا رکنا وہ فوری قدم تھا جو اٹھایا جا سکتا تھا۔ ورنہ تو یہ ہمارے لیے جینیوا کا ایک ویسا ہی دورہ تھا جو ہم نے سنہ 2014 میں کیا تھا۔

‘انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے جواب شدید فضائی حملوں کی شکل میں آیا۔ یہ حلب پر دوبارہ قبضے کے لیے اس علاقے پر روس کی ایسی فضائی مہم ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔شام کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حکومتی فوجوں نے حلب کے شمال مغرب میں واقع نبل اور زھرا نامی قصبوں کا محاصرہ توڑ دیا ہے۔خیال رہے کہ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔جبکہ صدر بشار الاسد کی افواج اور باغیوں کے درمیان جنگ کیعلاوہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں کے باعث ایک کروڑ کے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :