مصر میں 149 اسلام پسندوں کی سزائے موت کالعدم قرار

مدعاعلیہان کے خلاف پولیس ملازمین کے قتل کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم

بدھ 3 فروری 2016 19:41

قاہرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 فروری۔2016ء) مصر کی ایک اپیل عدالت نے ایک سو انچاس اسلام پسندوں کو سنائی گئی سزائے موت کالعدم قرار دے دی ہے اور ان کے خلاف تیرہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔مصر کی ایک فوجداری عدالت نے 2015ء میں برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے ایک سو تراسی حامیوں کو مختلف اوقات میں قاہرہ کے نواح میں واقع کرادسہ میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملے اور وہاں تیرہ پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق استغاثہ کے مطابق ان افراد نے کرادسہ پولیس اسٹیشن پر 14 اگست 2013ء کو دھاوا بول دیا تھا۔اسی روز قاہرہ میں برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کے دو دھرنوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے دوران کم سے کم چودہ سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

(جاری ہے)

پولیس اسٹیشن پر حملہ مصری فورسز کے اخوان المسلمون کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے ردعمل میں پیش آیا تھا۔

ڈاکٹر مرسی کی برطرفی کے بعد سے مصری سکیورٹی فورسز نے ان کے حامیوں اور ان کی سابقہ جماعت اخوان المسلمون کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا اور اس کے دوران میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ہزار سے زیادہ سیاسی کارکنان کو ہلاک کردیا گیا تھا اور ہزاروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان میں سے سیکڑوں کو تشدد کے مختلف واقعات میں ملوّث ہونے کے الزامات میں پھانسی یا عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔

مگر گذشتہ ایک سال کے دوران اپیل عدالت ان میں سے بیشتر سزاؤں کو کالعدم قرار دے چکی ہے اور اس نے یاتو سرے سے موت کی سزاؤں کو ختم کردیا ہے یا پھر مدعاعلیہان کے خلاف مقدمات کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔اس پر صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت میں شامل اخوان مخالف عہدے دار بہت جز بز ہوئے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں اسلام پسندوں کو سنائی گئی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کے لیے اصرار کرتے رہے ہیں۔تاہم ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے اب تک مصر میں صرف سات افراد کو پھانسی دی گئی ہے اور ان میں بھی چھے سخت گیر جنگجو گروپ داعش سے وابستہ تھے۔

متعلقہ عنوان :