پنجاب اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کا پی آئی اے ملازمین کی ہلاکت پر احتجاج ،ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر کے اسمبلی سیڑھیوں پر مظاہرہ

حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت پر نجکاری کرنے جارہی ہے ،ملک کے جو حالات ہیں وہ جمہوریت کو لپیٹنے کی طرف جا سکتے ہیں‘ڈاکٹر وسیم اختر آئندہ ہفتے خوراک ، زراعت اور خزانہ کے وزراء کی موجودگی میں اس پر بحث ہو گی ،کمیٹی بنانے کے حوالے سے ضرورت محسوس کی گئی تو ضرور بنائی جائیگی‘ ڈپٹی اسپیکر مسودہ قانون ( ترمیم ) ریونیو اتھارٹی ،مسودہ قانون انفراسٹر اکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ،مسودہ قانون ( ترمیم ) پنجاب فوڈ اتھارٹی اور مسودہ قانون ( ترمیم ) خالص خوراک منظور،مسودہ قانون ( ترمیم) اینیملز سلاٹر کنٹرول ایوان میں پیش

بدھ 3 فروری 2016 19:13

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے کراچی میں پی آئی اے کے دو ملازمین کی ہلاکت پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر کے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر مظاہرہ کیا ،اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین پنجاب میں کسانوں کے استحصال پر پھٹ پڑے جبکہ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے ایوان میں تسلیم کیا کہ اراکین اسمبلی اپنے جن تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں وہ درست ہیں،ڈپٹی اسپیکر نے آئندہ ہفتے خوراک، زراعت اور خزانہ کے وزراء کی موجودگی میں کسانوں کے مسائل پر عام بحث کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اگر ضرورت محسوس کی گئی تو اس پر ہاؤس کی کمیٹی بھی قائم کی جائے گی ، اجلاس میں انفراسٹر اکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سمیت چار مسودات قوانین کی منظوری بھی دی گئی جبکہ اینیملز سلاٹر کنٹرول پنجاب کا مسودہ قانون ایوان میں پیش کر دیا گیا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت صبح دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ملک میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے اور مسائل افہام و تفہیم سے حل کرنے کی بجائے گولی اور لاٹھی کا استعمال کر رہی ہے ۔

مسلم لیگ (ن) تاریخ کی پہلی سول حکومت ہے جس کے دور میں ماڈل ٹاؤن میں 14افراد کو گولیاں مار دی گئیں ۔ کراچی میں پی آئی اے کے دو ملازمین کو دن دیہاڑے چھلنی کر دیاگیا جبکہ درجنوں ہسپتال میں پڑے ہیں ۔ ہم اس گھناؤنے فعل کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک روز قبل پرویز رشید نے دھمکی دی تھی کہ اگر ملازمین باز نہ آئے تو انہیں کچل دیں گے ،مزا چکھا دیں ہم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔

پی آئی اے ملازمین سے اظہار یکجہتی اور واقع کے خلاف رولز معطل کر کے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہوشن کے ناخن لے اور فرعون بن کر حکومت نہ چلائے ۔لوگوں نے انہیں ووٹ دیا ہے تو جمہوری طور طریقے اختیار کئے جائیں۔ ہمار احکومت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی انکوائری کرائی جائے اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے ۔

اسی دوران اپوزیشن اراکین میاں محمو الرشید کی قیادت میں غنڈہ گردی نا منظور، سکھا شاہی نامنظور اور لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے نہیں چلے گی کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر گئے اور پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر جا کر مظاہرہ کر کے حکومت کیخلاف نعرے بازی کی ۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ادارے یکدم برباد نہیں ہوتے بلکہ یہ کئی سالوں کا تسلسل ہوتا ہے ۔

سیاسی دور میں چھ ہزار اسسٹنٹ بھرتی کئے گئے اور اس کیلئے پانچ ،پانچ لاکھ روپے رشوت لی گئی اوراسے جمہوریت کا نام دیدیا گیا ۔ منافع بخش روٹ نجی ائیر لائنز کو دیدئیے گئے ۔حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت پر پی آئی کی نجکاری کرنے جارہی ہے ۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرے ۔ کیونکہ ملک کے جو حالات ہیں وہ جمہوریت کو لپیٹنے کی طرف جا سکتے ہیں ۔

اس کے بعد ڈاکٹر وسیم اختر بھی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس موقع پر حکومتی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری نے کہا کہ افسوس کہ یہاں پر حقائق بیان نہیں کئے جاتے اور ہر چیز پرسیاست کی جاتی ہے ۔ پرویز رشید نے کسی کوکچلنے کا ہرگز کوئی بیان نہیں دیا ۔ گولی ہجوم کے اندر سے چلی ۔یہ ریکارڈ پر ہے کہ صوبائی حکومت نے رینجرز طلب کرنے کا کہا ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے منشو رمیں موجود ہے کہ اقتدار میں آکر پی آئی سمیت دیگر ایسے اداروں کی نجکاری کریں گے ۔

یہ ہڑتالی لوگوں کوکندھا فراہم کرتے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی ہدایت پرصوبائی وزراء چوہدری شیر علی اور ملک آصف بھا اعوان کو اپوزیشن کو منانے کے لئے گئے اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد اپوزیشن اراکین احتجاج ختم کر کے واپس آ گئے ۔ اجلاس کے دوران حکومتی اوراپوزیشن اراکین پنجاب میں کسان کے استحصال اور زرعی اجناس کی پیداواری لاگت سے انتہائی کم قیمت ملنے کے خلاف پھٹ پڑے اور حالات کا جائزہ لینے کیلئے ایوان کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ۔

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے حکومتی جماعت کے رکن اسمبلی الیاس چنیوٹی نے کہا کہ آلو کی فی بوری کی تیاری پر تقریباً ایک ہزار روپے خرچ آتا ہے جبکہ یہی بوری 400میں فروخت ہو رہی ہے ۔ کسان نے ادھار پکڑ کر فصل بوئی اب وہ کہاں جائے ۔ حکومتی رکن اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ دو ماہ سے آلو کاکاشتکار اپنی فصل لے کر منڈی کے دروازے پر کھڑا ہے لیکن کوئی خریدار نہیں ۔

چاول کی فصل کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا ۔ کسان کی اپنی لاگت پوری نہیں ہو رہی او روہ خو د کشیوں پر مجبور ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں بحث ضرور کرائی جائے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کسان کو اس کی فصل کی صحیح قیمت نہ ملنے کے اصل محرکات کیا ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہاؤس کی کمیٹی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قصور ، اوکاڑہ ، دیپالپور اور ساہیوال میں آلو کے کاشتکار پس کر رہ گئے ہیں ۔

کسان ایک ایکڑ پر پچپن ہزار روپے خرچ کرتا ہے لیکن اس کی فصل نہیں بک رہی اوروہ مڈل مین سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔ انہوں نے یہی حال گنے کے کاشتکار کا ہے جسے ملوں کی طرف سے گزشتہ سال کی ادائیگیاں نہیں کی جارہیں ۔ صرف میر ے شہر میں ایک مل نے کسانوں کے ایک سو کروڑ روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں ۔چینی بینک نے اپنے قبضے میں لے لی ہے اور نیا مالک آ کر بیٹھ گیا ہے اس پر کسان کہاں جائے ۔

انہوں نے کہا کہ آج میں بول رہا ہوں لیکن کل سارے بولیں گے ۔شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ میں اس پر کئی مرتبہ آواز اٹھا چکا ہوں ۔حکومت نے چینی کے ایکسپورٹر کو فی کلو پر 13روپے دئیے ۔مارکیٹ میں چینی کی قیمت سات روپے بڑھی ہے لیکن شوگر ملوں نے کسانوں کو ادائیگیاں نہیں کیں۔ ایکسپورٹر کو تو فائدہ ہو تا ہے لیکن کسان کو کچھ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ آلو کی چپس بنانے والوں نے تو ایک روپیہ کم نہیں کیا لیکن کسان بے حال ہے ۔

ہم کسانوں کا دفاع نہیں کر پارہے ۔ حکومتی جماعت کے رکن وارث کلو نے کہا کہ ایوان میں اکثریت کا تعلق زراعت کے شعبے سے ہے اور سب کے اندر یہی بھڑاس ہے ۔ کسان طبقہ نڈھال ہے او رخود کشیوں پر مجبور ہے ۔ چاول ، گنے اور آلو کے کاشتکار کی اپنی لاگت پوری نہیں ہو رہی جبکہ اس کے اوپر ظلم ہے کہ زررعی ٹیکس ، زرعی انکم ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز بھی عائد ہیں ۔

اگر مرتی ہوئی معیشت کو زندہ رکھنا ہے تو زراعت کی طرف توجہ دینا ہو گی ۔ تحریک انصاف کے احمد بھچر نے کہا کہ کسان پر دوہرے ٹیکس لاگو ہیں اور انہیں پھر نوٹسز بھجوائے جارہے ہیں جو ظلم ہے ۔مسلم لیگ (ق) کے وقاص حسن موکل نے کہا کہ نے کہا کہ اس پر آج ہی کمیٹی بننی چاہیے ۔ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ گنے اور آلو کے کاشتکار کے تحفظات بالکل درست ہیں اور یہ حقائق پر مبنی ہیں ۔

آلو کی بمپر کراپ ہوئی ہے لیکن کسان کو اس کا صحیح معاوضہ نہیں مل رہا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آلو کی ایکسپورٹ پر گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہر طرح کی ڈیوٹی ختم کردی ہے اور کسی بھی ملک کوآلو بھیجنے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ پاکستان کا آلو بھارت کے مقابلے میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ایکسپورٹرز سے رابطے میں ہوں اور 15فروری کے بعد اس کی ایکسپورٹ میں تیزی آ ئے گی اور ہمارا آلو سری لنکا، ملائیشیاء اور روس کی ریاستوں کو بھجوایا جائے گا ۔

اس موقع پر اراکین کی طرف سے ہاؤس کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا تاہم ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ آئندہ ہفتے ا س معاملے پر عام بحث ہو گی جس میں خوراک ، زراعت اور خزانہ کے وزراء ایوان میں موجود ہوں گے اور اگر اس روز کمیٹی بنانے کے حوالے سے ضرورت محسوس کی گئی تو ضرور کمیٹی بنائی جائے گی ۔ قبل ازیں صوبائی وزیر ڈاکٹر فرخ جاوید نے زراعت اور صوبائی وزیر رانا مشہوداحمد نے امور نوجواناں، کھیل ، آثار قدیمہ اور سیاحت سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔

ڈاکٹر فرخ جاوید نے ضمنی سوال کے جواب میں بتایا کہ موجودہ حکومت ریسرچ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور امریکہ کی ایک معروف یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب اورپاکستان میں ریسرچ کے شعبے میں خرچ کئے جانے والے ایک روپے کے مقابلے میں تیس روپے واپس آئے ہیں ۔ ریسرچ کی افادیت ہے کہ ہماری زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوارمیں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔

زعیم قادری کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر زراعت نے بتایا کہ اس سے پہلے جب ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بائیو ٹیکنالوجی سے متعلق بات ہو رہی تھی تو اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ ہمارا کسان تباہ ہو جائیگا ۔ بھارت ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مل کر یہی اقدام کر رہا ہے اور اس سے استفادہ کررہا ہے ۔ اب وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر بائیو ٹیکنالوجی کے سلسلہ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پنجاب میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے لایا جائے گا۔

وزیر زراعت نے ایوان کو بتایا کہ ورلڈ بینک کے پروگرام کے ذریعے 58ہزار میں سے 48ہزار کھالہ جات پختہ کئے گئے ہیں جبکہ باقی رہ جانے والے بھی جلد پختہ کر لئے جائیں گے۔ ا نہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کسانوں کو بجلی کے بلوں کی مد میں 35ارب کی سبسڈی دی گئی ہے جبکہ کھادوں کی مد میں بھی تقریباً20ارب روپے کی سبسڈی بنتی ہے ۔ صوبائی وزیر رانا مشہود نے امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں کہا کہ پنجاب یوتھ فیسٹول میں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو کراس چیک کے ذریعے انعامی رقم کی ادائیگیاں کر دی گئی ہیں اگر کوئی کھلاڑی رہ گیا ہے تو اس کا بتایا جائے اس کی تصدیق کرنے کے بعد اسے ادائیگی کر دی جائے گی ۔

اس موقع پر حکومتی رکن میاں طاہر نے سکولوں کی خراب حالت پر سوال اٹھایا تو اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ میں حکومت کا دفاع نہیں کر رہا لیکن اب سکولوں کی حالت میں بہت بہتری آئی ہے ۔ جہاں اساتذہ دس ، دس سال سے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے تھے اب وہ سکولوں میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔بعد ازاں صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اﷲ خان نے مسودہ قانون ( ترمیم) اینیملز سلاٹر کنٹرول پنجاب 2015ایوان میں متعارف کرایا جسے ڈپٹی اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ۔

جبکہ مسودہ قانون ( ترمیم ) ریونیو اتھارٹی پنجاب 2015،مسودہ قانون انفراسٹر اکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب 2015،مسودہ قانون ( ترمیم ) پنجاب فوڈ اتھارٹی 2015 اور مسودہ قانون ( ترمیم ) خالص خوراک پنجاب 2015 ایوان میں پیش کر کے ان کی منظوری لی گئی جبکہ اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ مسودہ قانون ریو نیو اتھارٹی کی منظوری کے دوران تحریک انصاف کے آصف محمود نے کورم کی نشاندہی کی اور ایوان سے باہر چلے گئے ،کورم پورا نہ ہونے پر ڈپٹی اسپیکر نے پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا او رکورم پورا ہونے پر سرکاری کارروائی کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا ۔

اس موقع پر صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی رانا ثنااﷲ خان نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ میں ترامیم بل میں ترامیم کے بعد قائمہ کمیٹی نے اسے پاس کر لیا ہے ۔اپوزیشن نے آرڈیننس عدالت میں چیلنج کئے تھے تاہم اور عدالت نے کہا ہے کہ معزز ایوان میں یہ معاملہ چل رہا ہے اس لئے حکم امتناعی نہیں دیا جا سکتا اور وہاں بحث کریں ۔ تمام اپوزیشن آج جمعرات وقفہ سوالات تک اپنی ترامیم جمع کرا دیں تاکہ کل کوئی اعتراض نہ کر سکے کہ ہمیں اس کی اطلاع نہیں دی گئی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی سیکرٹریٹ کو ہدایت کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے رابطہ کر کے انہیں آگاہ کریں جبکہ انہوں نے ایوان میں بیٹھے ہوئے اپوزیشن اراکین کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا ۔

ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس آج جمعرات صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا ۔