سندھ کی نایاب ڈولفن کو دریا کے بالائی حصوں میں منتقل کرنے پرغور

منگل 2 فروری 2016 14:11

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 فروری۔2016ء) حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں تیزی سے کم ہوتی ہوئی نایاب اندھی ڈولفن کو ان کے مسکن سے نکال کر دریائے سندھ کے اوپری حصے پر منتقل کرنے سے شاید ان کی بقا کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ بائیلوجوکیکل کنزرویشن نامی جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں پاکستانی اور بین الاقوامی ماہرین نے خیال پیش کیا ہے کہ ایک وقت میں دریائے سندھ کی ڈولفن 3500کلومیٹر طویل رقبے پر کناروں کے اطراف موجود تھی لیکن پانی کے مسلسل استعمال اور زرعی آبپاشی کے بعد ان کی تعداد 80 فیصد کم ہوچکی ہے اور اب 1200 سے 1700 ڈولفن ہی باقی بچی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس حساس اور نایاب ممالیے کو دریائے سندھ کے بالائی اور نسبتاً ًمحفوظ پانیوں میں منتقل کرکے ان کی مزید ہلاکتوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

آج تمام ڈولفن دریائے سندھ کے 189 کلومیٹر علاقے میں پائی جاتی ہیں اور اسی جگہ آب پاشی کے نالوں میں یہ مچھلیں پھنس جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ دریائی آلودگی، پانی کے بہا میں کمی اور ماہی گیری کی وجہ سے ڈولفن مررہی ہیں۔

اب ڈولفن صرف 189 کلومیٹر طویل دریائی پٹی میں موجود ہیں جسے ایک پناہ گاہ کا درجہ دیدیا گیا ہے۔دوسری جانب سندھ وائلڈ لائف محمکے کے ماہرین نے کہا ہے کہ ڈولفن کو منتقل کرنے کا منصوبہ خطروں سے خالی نہیں ۔ ہرسال ڈولفن زرعی آب پاشی کی نالیوں میں پھنس جاتی ہیں جنہیں دوبارہ دریا میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس حساس جانور کو دریا تک لے جانا ممکن ہوتا ہے لیکن دریائے سندھ کے بالائی پانیوں میں منتقلی سے خود اس جانور کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، سندھ وائلڈ لائف کے سربراہ سعید بلوچ نے کہا۔

دوسری جانب ورلڈ وائلڈلائف فنڈ پاکستان (ڈبلیوڈبلیوایف پی)نے ایک مطالعے پر کام شروع کردیا ہے جس میں ڈولفنز کو طویل فاصلے تک لے جانے میں حائل مشکلات اور خطرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ڈولفن تین گھنٹوں تک پانی سے باہر زندہ رہ سکتی ہیں لیکن انہیں خاص گیلے تولیوں میں لپیٹنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انہیں مناسب نمی ملتی رہے۔ڈبلیوڈبلیو ایف کے مطابق انہیں ہوائی جہاز سے منتقل کرنا ناممکن ہے کیونکہ آواز اور جھٹکوں سے یہ جاندار حساس ہے اور شاید اس سفر میں جی نہ سکے۔

تحقیقی رپورٹ کی مصنفہ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف سے وابستہ عظمی خان نے بتایا کہ اب صرف تیز رفتار کشتی کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے۔ لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ بالائی دریائے سندھ میں ڈولفن کی مناسب خوراک موجود ہے اور کیا انہیں وہاں کا ماحول موافق آسکے گا یا نہیں اور کیا وہ اس نئے ماحول میں رہ بھی سکیں گی یا نہیں؟عظمی خان نے کہا کہ منتقل کرنے کے لیے ان ڈولفن کو پانی سے پکڑنا بھی آسان نہیں کیونکہ وہ اس دبا سے مر بھی سکتی ہیں۔

شائع شدہ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ اگر ان ڈولفنز کو زندہ رکھنا ہے تو پانی کے بہا کو یقینی بنایا جائے، انکی مسلسل نگرانی کی جائے اور دریا میں موجود لوگوں سے مل کر ان کی نگہداشت کی جائے ورنہ چین کے دریاں میں موجود بائی جی ڈولفن کی طرح ان کا حال ہوگا جو اب صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔

متعلقہ عنوان :