کر اچی کی انسداد دہشت گرد ی عدالت نے عزیر بلوچ کو 90روز ہ جسمانی ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کردیا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ملزم سے تفتیش اوررپورٹ مرتب کرنے کی اجازت

ملزم کو انتہائی سخت سیکیورٹی ، ہتھکڑیاں لگاکر اور چہرا کپڑے سے ڈھانپ کر عدالت میں پیش کیاگیا،عزیر بلوچ پر مختلف تھانوں میں 56مقدمات درج

ہفتہ 30 جنوری 2016 17:47

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 جنوری۔2016ء ) کراچی کی انسداد دہشت گرد ی کی خصوصی عدالت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو 90روز کیلئے رینجرز کی تحویل میں دیتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو عزیر بلوچ سے تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔ ہفتہ کو سندھ رینجرز نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج سید فاروق شاہ کے روبرو پیش کر کے 90روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

عدالت نے رینجرز کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کو 90روز کیلئے رینجرز کی تحویل میں دے دیا جبکہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ مرتب کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ رینجرز نے عزیر بلوچ کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر اور منہ کپڑے سے ڈھانپ کر عدالت میں پیش کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر عدالت کے باہر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو گزشتہ رات کراچی میں داخل ہوتے وقت گرفتار کیا گیا تھا،عزیر بلوچ پر لیاری کے تھانوں میں 56مقدمات درج ہیں اور ان کے سر کی قیمت 20لاکھ روپے مقرر ہے ۔

واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں، عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔

پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔ عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔

عذیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔

ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔

اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عذیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عذیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔ غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔عذیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے۔

متعلقہ عنوان :