لیاری گینگ وار کے50 لاکھ سر کی قیمت والے سرغنہ عذیر بلوچ کو سندھ رینجرز نے گرفتار کرلیا

ہفتہ 30 جنوری 2016 11:19

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 جنوری۔2016ء ) لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کو سندھ رینجرز نے گرفتار کرلیا۔رینجرز کے مطابق پاکستان رینجرز سندھ نے گزشتہ رات ایک ٹارگٹڈ کارروائی کے دوران کراچی کے مضافات سے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کو کراچی میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عذیر بلوچ سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں۔ عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔ عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔

عذیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔

ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔

اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عذیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ پولیس ان کاوٴنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عذیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے ا?ئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔ غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔عذیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے۔

متعلقہ عنوان :