وفاقی وزیرخزانہ نے ریفنڈز دینے کے کئی وعدے بھی ،تاحال وعدوں کی پاسداری نہیں کی ،فرخ مقبول

ریفنڈز کی مد میں برآمدکنندگان کے پھنسے ہوئے 250 ارب کے واجبات کوبلاسود قرض تصورکرکے حکومتی امور چلانے میں استعمال کرنا شروع کردیاگیا ہے

منگل 26 جنوری 2016 18:27

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 جنوری۔2016ء)وفاقی حکومت نے سیلزٹیکس، کسٹم ریبیٹ، ڈی ایل ٹی ایل ودیگر ریفنڈز کی مد میں برآمدکنندگان کے پھنسے ہوئے 250 ارب روپے کے واجبات کوبلاسود قرض تصورکرتے ہوئے حکومتی امور کوچلانے میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے، برآمدی شعبوں کا کہنا ہے کہ بینکنگ انڈسٹری کی جانب سے جاری کردہ تجارتی قرضوں پر اوسطا 8 فیصد سالانہ کی شرح سے مارک اپ وصول کیا جاتا ہے اگر حکومت 250 ارب روپے مالیت کے قرضے تجارتی بینکوں سے حاصل کرے تو اسے 8 فیصد کی اسطاسالانہ شرح سے20 ارب روپے صرف سود کی مد میں ادائیگیاں کرنی پڑیں گی اور اس حقیقت سے آگاہی کے باعث وزارت خزانہ نے برآمدکنندگان کے مجموعی طور پر250 ارب روپے کی رقم کو ادا کرنے کے بجائے حکومتی امور چلانے میں استعمال کو ترجیح دے رہا ہے، ٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین فرخ مقبول نے بتایا کہ سیلزٹیکس سمیت دیگر ریفنڈز کی مد میں ادائیگیوں کے حوالے سے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ تقریبا تمام برآمدی ایسوسی ایشنز کے ساتھ متعدد اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جس میں وزیرخزانہ نے انہیں ریفنڈز دینے کے کئی وعدے بھی کیے لیکن تاحال ان وعدوں کی پاسداری نہیں کی گئی ہے جسکی وجہ سے چھوٹی ودرمیانی درجے کی صنعتیں بدترین مالیاتی بحران سے دوچار ہوکر بندش کی جانب گامزن ہوگئی ہیں، فرخ مقبول نے بتایا کہ ریفنڈز نہ ملنے کی وجہ سے بینکوں سے تجارتی قرضے حاصل کرنے والے برآمدکنندگان خوامخواہ 8 فیصد سالانہ سود کی مد میں ادائیگیاں کررہے ہیں، مالیاتی بحران کے سبب شعبہ ٹیکسٹائل کی برآمدات ماہوار14 فیصد کی شرح سے گررہی ہے، حکومت کی جانب سے برآمدکنندگان کی اپنی رقومات کی ادائیگیوں میں تاخیر کی جاری پالیسی برقرار رہی تو ملک بھر میں ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کی چھوٹی ودرمیانی درجے کی سینکڑوں صنعتیں بند ہونے کے خطرات پیدا ہوجائیں گے جو نہ صرف بے روزگاری میں اضافے کا سبب بنے گی بلکہ اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھانے اور حکومت کو بھی ریونیو کی مد میں کمی کا سبب بنے گی، انہوں نے بتایا کہ ان منفی عوامل کے سبب حکومت کا ریونیو خسارہ بڑھ جائے گا جسکے تدارک کے لیے ایف بی آر حکام سہل راستہ اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف ٹیکسوں وڈیوٹی کی شرحوں میں اضافے کا راستہ اختیار کریں گے جبکہ قابل ٹیکس آمدنی کے حامل افراد وشعبہ جات ٹیکس نیٹ میں شمولیت سے گریز کریں گے، انہوں نے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ برآمدکنندہ صنعتوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات کی کھل کروضاحت کرے کہ آیا موجودہ حکومت کو برآمدی صنعتوں کی افزائش یا انکی بقا عزیز ہے یا پھر وہ خود ان صنعتوں کو بند کرنے حق میں ہے کیونکہ موجودہ بدترین مالیاتی بحران کی شکار صنعتوں کے لیے اپنی پیداواری سرگرمیوں کوجاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔