شام کے تنازع پر مذکرات 29جنوری کو جنیوامیں شروع ہونگے‘مذاکرات میں دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروہوں کی شرکت کے امکان کو مسترد کیا جا چکا ہے‘دیگر باغی گروہوں کی شرکت کے بارے میں مشاورت جاری ہے‘ترکی نے مذاکرات میں شام کے کرد گروہوں کی شرکت کی مخالفت کی ہے:اقوام متحدہ کے سفیر کا بیان

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 26 جنوری 2016 10:57

برسلز(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 26 جنوری۔2015ء) شام کے تنازع پر مذکرات 29جنوری کو جنیوامیں ہونگے جو کہ 6ماہ تک جاری رہیں گے‘ مذاکرات کے شرکا کے بارے میں تاحال بات چیت جاری ہے‘فوری جنگ بندی اور خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی تنظیم کو روکنا اور متاثرین کی امداد میں اضافہ کرنا ترجیحات میں شامل ہے۔اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر سٹافن ڈی میستورا کی جانب سے مذاکرات کی تاریخ کا اعلان ایے ایسے وقت کیا گیا ہے جب حلب میں باغیوں کی چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

اس سے پہلے شرکا کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کی وجہ مذاکرات میں تاخیر ہو چکی ہے تاہم سٹافن ڈی میستورا کے مطابق توقع ہے کہ 28جنوری تک شرکا کو دعوت نامے بھیج دیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

سٹافن ڈی میستورا کے مطابق ان مذاکرات میں دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروہوں کی شرکت کے امکان کو مسترد کیا جا چکا ہے تاہم دیگر باغی گروہوں کی شرکت کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔

ترکی نے مذاکرات میں شام کے کرد گروہوں کی شرکت کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ گروہوں کودہشت گردسمجھتا ہے اور اس کے نزدیک ان کی شرکت سے مذاکرات ناکام ہو سکتے ہیں۔سٹافن ڈی میستورا کے مطابق مذاکرات کا پہلا مرحلہ دو سے تین ہفتوں پر مشتمل ہو گا۔اس کے ساتھ انھوں نے خبردار کیا کہ مذاکرات میں کافی گرما گرمی ہو سکتی ہے جس میں متعدد بار بائیکاٹ اور دوبارہ شرکت متوقع ہے۔

گذشتہ ماہ ہی شامی حکومت نے کہا تھا کہ وہ ملک میں جاری شورش کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔واضح رہے کہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :