کراچی، پولیس نے بااثر ملزمان سے مُک مُکا کرکے موت کو اتفاقی حادثہ قراردیدیا،مقتولہ امتیاز خاتون کی والدہ کی پریس کانفرنس

پیر 25 جنوری 2016 22:19

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔25 جنوری۔2016ء) سائبان انٹرنیشنل ویلفیئر آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری حیدر علی حیدر اور سائبان لیگل ایڈ کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین محمد زرین ستّی ایڈوکٹ نے اسٹیل ٹاؤن میں 11دسمبر کو تیل چھڑک کر آگ لگائی جانے والی دو بچوں کی ماں امتیاز خاتون کی والدہ سبحان خاتون کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پولیس نے بااثر ملزمان سے مُک مُکا کرکے موت کو اتفاقی حادثہ قراردیدیا مقتولہ کی والدہ جب تھانے پہنچی تو اسے تھانے سے باہر نکال دیا۔

انہوں نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 11دسمبر 2015کو مقتولہ کو ملزمان زاہد سموں، دھنی بخش سموں، مراد سموں اور دھنی بخش کی بیوی صغرا نے مل کر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگائی اور بُری طرح جھلسنے کے بعد اسے پہلے پاکستان اسٹیل کے ہنڈریڈ بیڈ ہسپتال لے گئے جہاں سے پولیس کیس ہونے کی وجہ سے جناح ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں کی MLOڈاکٹر شمائلہ صدیق نے اسے ایمبولینس میں ہی ایگزامین کیاMLO کے پوچھنے پر ملزماں صغرا نے بتایا کہ اس کے اوپر مٹی کے تیل کا بوتل گرگیا ہے جبکہ نیچے چولہا جل رہا تھا جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور اس طرح یہ جل گئی واضح رہے کہ مقتولہ امتیاز خاتون بُری طرح جھلسنے اور ملزماں صغرا کی گود میں سر ہونے کی وجہ سے کچھ کہنے سے قاصر تھی، ڈاکٹر شمائلہ صدیق نے مضربہ کو سول ہسپتال لے جانے کو کہا جب ملزمان مضربہ کو سول ہسپتال لے گئے تو وہ بے ہوش تھی جہاں اسے وہاں کے ڈاکٹر فرحان نے ٹریٹمنٹ دی مقتولہ کو 13دسمبر کو ہوش آیا جہاں مقتولہ کی والدہ سبحان خاتون اور مقتولہ کی دوسری بہن عظمیٰ موجود تھی جنہیں امتیاز خاتون نے بتایا کہ 11دسمبر کو وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے گھر پر اکیلی تھی کہ اس کے شوہر حاجی خان کا بھتیجا زاہد سموں گھر میں آیا اور پہلے بہن سے رشتہ دلانے کیلئے اصرار کیا اور جب میں نے بُرا بھلا کہا تو اُس نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی اور میرے شور مچانے پر وہ مشتعل ہوگیا اسی اثنا میرے شوہر حاجی خان کے بہنوئی دھنی بخش سموں، اس کا بیٹا مرادسموں اور دھنی بخش سموں کی بیوی صغر(ا جو کہ میری نند ہے) لوگ آگئے اور جب میں شور مچانے سے باز نہیں آئی تو ان ملزمان نے مجھے ہمیشہ کیلئے چپ کرانے کیلئے صغرا ، دھنی بخش سموں اور مراد سموں نے پکڑا اور ملزم زاہد سموں نے تیل چھڑک کر آگ لگائی میری مزاحمت کی وجہ سے وہ خود بھی زخمی ہوا ہے۔

(جاری ہے)

14 دسمبرکی صبح 6بجے امتیاز خاتون انتقال کرگئی تو ملزمان نے جرم چھپانے کیلئے نعش کو سول ہسپتال کراچی سے باہر ہی باہر دادو لے گئے جاتے ہوئے مقتولہ کی والدہ سبحان خاتون اور بہن عظمیٰ کو بھی زبردستی ایمبولینس میں بٹھا کر ساتھ لے گئے جب دادو سے واپسی ہوئی تو مقتولہ کی والدہ اسٹیل ٹاؤن تھانے پہنچی تو اسے تھانے سے باہر نکال دیا گیا کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔

بعدازاں سائبان انٹرنیشنل ویلفیئر آگنائزیشن نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کے تحت 22/Aکی درخواست لگائی تو عدالت نے جناح اور سول ہسپتال کے ڈاکٹروں کو طلب کرلیا جناح کی MLOنے بتایا کہ اس نے ایمبولینس کے اندر ہی صرف ایگزامین کیا علاج نہیں کیا جبکہ سول ہسپتال کے ڈاکٹر فرحان جب عدالت پہنچے تو ملزم پارٹی کے 6افراد ڈاکٹر فرحان کے دائیں اور بائیں موجودتھے ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسے مریضہ نے بتایا تھا کہ اسے خود سے آگ لگی ہے مقتولہ کی والدہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر نے امتیاز خاتون سے بیان لینے سے قبل نہ ہی کسی مجسٹریٹ کو اطلاع دی اور نہ ہی پولیس کو ڈاکٹر کے بیان لینے کا کوئی گواہ نہیں ہے اسے عدالت نے تسلیم کیا کہ اس میں بے قاعدگی ضرور ہوئی ہے۔

دوسری جانب پولیس نے امتیاز خاتون کی موت کو اتفاقیہ قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ کھڑکی کی صفائی کر رہی تھی کہ اس کے اوپر مٹی کے تیل کی بوتل گرگئی جبکہ نیچے چولہا جل رہا تھا جس سے آگ بھڑک اٹھی اور وہ جل گئی۔ پولیس نے بتایا کہ مرحومہ نے ہسپتال میں گواہان کی موجودگی میں یہ بیان دیا ہے واضح رہے کہ مبّینہ گواہان میں ملزمان کے دستخط بھی شامل ہیں سائبان انٹرنیشنل ویلفیئر کے جنرل سکریٹری حیدر علی حیدر نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ سائبان نے مقتولہ کی والدہ سبحان خاتون کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ملزمان کے خلاف آئینی درخواست جمع کرادی ہے اُمید ہے کہ سندھ ہائی کورٹ سے انصاف ضرور ملے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس کے تمام ملزمان کا تعلق پاکستان اسٹیل سے ہے جبکہ ملزمان کے سرغنہ دھنی بخش سموں کا ایک بھائی مصطفی سموں جو حال ہی میں اسٹیل ٹاؤن کا یوسی چیئرمین منتخب ہوا ہے وہ تھانے میں اپنا اثر و رسوخ دکھا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مذکورہ ملزمان نے مقتولہ کے شوہر اعجاز عرف حاجی خان اور مقتولہ کا باپ قاسم سموں کو بھی بھاری رقم دے کر خریدلیا ہے جن سے پولیس نے 21دسمبر2015کو خود سے تیار کردہ بیان پر دستخط کروالئے ہیں تاکہ عدالت اور اعلیٰ حکام کو امتیاز خاتون کی موت کو اتفاقیہ قرار دینے میں مدد مل سکے۔

متعلقہ عنوان :