’’ انڈے لے لو، کتاب دے دو ‘‘

Zeeshan Haider ذیشان حیدر ہفتہ 23 جنوری 2016 19:28

سمبڑیال(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 23 جنوری۔2015ء ) مہنگائی اور غربت نے مستقبل کے معمار نونہال سکولز سے فارغ ہونے کے بعد شدیدسردی کے موسم اور دھند میں مغرب سے لے کر رات 10بجے تک ’’ابلے انڈے‘‘ فروخت اور ہوٹلوں پر کام کرنے پر مجبور کردیے ہیں ۔ سمبڑیال و گردونواح میں غریبی ،مفلسی اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور گھرانوں کے نونہال اپنے والدین کا معاشی بوجھ بانٹنے کیلئے سردی کی یخ بستہ راتوں کو گرم ابلے انڈے کی ٹوکریاں ،پلاسٹک کی بالٹیاں اور کولر وغیرہ اٹھائے ہوئے گلی کوچوں ،چوراہوں ،ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ پر ’’گرم انڈے ‘‘ کی ننھی صدائیں بلند کرتے شہریوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے سرگرداں نظر آتے ہیں ۔

ان محنت کش بچوں میں اکثریت کلاس چہارم سے ہفتم تک کے طلباء کی ہوتی جنہوں نے اپنی سرکاری سکول کی وردیاں بھی اکثر زیب تن کی ہوتی ہیں ۔

(جاری ہے)

گذشتہ رات میڈیا سے کلاس چہارم کے انڈے فروش طالب علم نے بتایا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں قابو کرے اور جو بچے مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں انکی ہرطرح سے امداد کرے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں ۔

اسکے علاوہ اکثریت کی تعداد میں مقامی ہوٹلز اور تکہ شاپس پر برتن دھوتے گاہکوں کو سروس مہیا کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کہ معاشرتی بے حسی کے اس عالم میں ایک وقت کی روٹی اور چند پیسوں کی خاطر گرم بستر کی آرام دہ نیند اور والدین کی محبت سے بھی محروم ہیں ایسے افراد جو تعلیم سے بھی وابستہ ہیں ارباب اختیار اور مخیر حضرات کی نگاہوں کے منتظر ہیں بلندو بانگ دعوے تو ہم کرتے ہیں لیکن ایسے افراد کی کفالت کرنے سے گریزاں ہیں ۔