یونیورسٹی ڈائریکٹر محمد شکیل نے گارڈز سے بندوق لیکر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا ‘ دہشتگرد پرگولیاں بھی چلائیں

ہم غیر مسلح اور چھپے ہوئے تھے ‘ مجھے بچوں کی بہت فکر ہورہی تھی ‘ محمد شکیل امن و امان کے مخدوش حالات کے پیش نظر کئی اساتذہ اپنے ساتھ بندوق رکھتے ہیں ‘ صدر کے پی کے یونیورسٹی ٹیچنگ سٹاف

جمعہ 22 جنوری 2016 14:50

چارسدہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 جنوری۔2016ء) خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونورسٹی پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے دور ان یونیورسٹی ڈائریکٹر محمد شکیل نے گارڈز سے بندوق لیکر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا میڈیا رپورٹ کے مطابق حملے کے دوران 15 طلبہ کے ہمراہ محمد شکیل عمارت کی تیسری منزل پر پھنس گئے۔حملے دوران محمد شکیل نے جب حملہ آوروں کو اوپر کی جانب آتے دیکھا تو قریب موجود ایک پولیس اہلکار سے درخواست کی کہ وہ انہیں ایک بندوق دے دیں تاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کرسکیں۔

محمد شکیل نے بتایا کہ ہم غیر مسلح اور چھپے ہوئے تھے، مجھے بچوں کی بہت فکر ہورہی تھی اور اسی دوران ایک حملہ آور ہمارے قریب آگیا۔انہوں نے بتایا کہ اس نازک موقع پر میرے بار بار درخواست کرنے پر پولیس اہلکار نے میری جانب ایک بندوق پھینک دی جس سے میں نے حملہ آور پر کچھ فائر کیے۔

(جاری ہے)

حملے کے دور ان دہشت گردوں کے حملے میں شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر حامد حسین طلبہ کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہارے ‘شعبہ انگریزی کے لیکچرار شبیر احمد خان نے کہاکہ حامد حسین نے حملے کے دوران طلبہ اور چند اساتذہ کے ہمراہ خود کو ایک کمرے میں بند کرلیاجب حملہ آور کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو حامد حسین نے اپنی بندوق سے اْن پر چند راوٴنڈز فائر کیے۔

شبیر احمد خان نے جان بچانے کے لیے قریبی واش روم میں پناہ لی تھی۔وہ اس اندوہناک لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ بس اب میری موت قریب ہے، لیکن پھر حملہ آور واش روم میں داخل ہوئے بغیر ہی واپس چلے گئے۔حملے میں بچ جانے والوں نے میڈیا کو بتایا کہ بعد ازاں حامد حسین نے وہاں سے بچوں کو نکالنے کے لیے ایک بار پھر حملہ آوروں پر فائر کیے، تاہم پھر وہ حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

یونیورسٹی پر حملے کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا اساتذہ کو مسلح ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان کے پیشے کے آداب اور اصولوں کے خلاف ہے۔خیبر پختونخوا یونیورسٹی کی ٹیچنگ اسٹاف ایسویس ایشن کے صدر جمیل چترالی کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کے مخدوش حالات کے پیش نظر اب کئی اساتذہ اپنے ساتھ بندوق رکھتے ہیں لیکن یہ ہمارے شعبے کے آداب کے خلاف ہے، میں کلاس میں بچوں کو اصول اور اخلاقیات کا درس دیتا ہوں اس لیے میں کیسے اپنے ساتھ بندوق رکھ سکتا ہوں۔خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پیش آنے والے سانحہ پشاور کے بعد خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وہ ایسے حالات میں اپنی حفاظت خود کرسکیں۔

متعلقہ عنوان :