چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ریاستی پالیسوں کی مکمل ناکامی کا نتیجہ ہے، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن

جمعرات 21 جنوری 2016 21:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21 جنوری۔2016ء) چارسدہ میں طلبا پر حملہ بیرونی ساز ش نہیں بلکہ ریاست کی اپنی پالیسوں کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف نوجوان نسل کو نساب کے اندر نفرت کے سبق دئے جاتے ہیں تو دوسری طرف طلبا کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اندر مارا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سکیورٹی اداروں کو بے بہاء وسائل اور اختیارات دینے کے باوجود ہماری حفاظت کرنے میں ناکام کیوں۔

ان خیالات کا اظہار جمعرات کے روز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر ہونے والے حملے کیخلاف مختلف مقررین نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ میں کیا جو کہ نیشنل سٹوڈنٹس فیدریشن (این ایس ایف ) کی جانب سے منعقد کیا گیا۔ مظاہرے میں درجنوں طلبا، ترقی پسند سیاسی کارکن، دانشور، ٹریڈ یونین ورکرز اور عام شہریوں نے شرکت کی اور مسلسل ایک گھنٹے تک اسٹیبلشمنٹ کی تاریخی پالیسوں اور تعلیمی نساب کی تبدیلی کے حوالے سے نعرہ بازی کرتے رہے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے این ایس ایف کی رہنما عالیہ امیر علی نے کہا کہ یہ اتفاق کی بات نہیں ہے کہ حملہ باچا خان کی برسی کے موقع پر ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف طلبا اور اساتذہ بلکہ باچا خان کے نظریات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ باچا خان سمیت تمام ترقی پسند شروع دن سے حکمرانوں کی ان پالیسوں کی مخالفت کرتے رہے جس کے تحت انتہاء پسند تنظیموں کو اس بہانے پالا گیاکہ ہمسائیہ ممالک کے خلاف استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان خود پاکستانی سماج اور خاص طور پر نوجوان نسل کو ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج دن تک ایسی تنظیمیں کھلے عام نفرت پھیلاتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے او ر جو کوئی سوال اٹھاتا بھی ہے تو اس کو ریاستی ادارے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے نشانہ بناتی ہیں۔ عالیہ امیر علی نے کہا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی سے چھٹکارہ اور امن کے قیام کا مسئلہ ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دوستی کئے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔

این ایس ایف راولپنڈی اسلام آباد کے آرگنائزر بورگھ بلوچ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسے واقعات کی جانب امومی رویہ میڈیا میں ظاہر ہوتا ہے کہ جو اپنے سماجی تضادات اور ریاستی پالیسوں پر سوال اٹھانے کی بجائے ہمسائیہ ممالک کو زمہ دار ٹھیراتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نساب کے اندر تاریخ کو اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے غلط طریقہ سے پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے ہی ملک کے اندر پھیلنے والی اس تباہی کو سمجھنے سے قاسر ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتہاء پسند خیلاات اب سماج بھر میں سرائت کر چکے ہیں اور ان کو اسٹیبلشمنت کو مزید طاقت اور وسائل دینے سے نہیں بلکہ طویل سیاسی و نظریاتی جدو جہد کے ذریعے ہی قابو کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں تمام جمہوری قوتوں کو ملکر ریاستی پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔دیگر مقررین میں عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی ترجمان نثار شاہ اور مختلف ترقی پسند طلبا تنظیموں کے رہنما شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کے بارے میں بحث کھولی جائے تاکہ مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے اور تشدد کرنے والے حلقوں کو ہی ٹارگٹ کیا جائے جبکہ اپنے قوموں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے پشتون، بلوچ اور دیگر سیاسی قوتوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ریاستی جبر کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ جبکہ دانشوروں اور اساتذہ سے اپیل کی گئی کہ وہ بھی ریاستی حلقوں پر دباؤ ڈالیں کہ ایسے ماحول میں تعلیم دینا ممکن نہیں ہے اور اس حوالے سے سیکیورٹی ادارے زمہ دار ہیں کہ وہ ہر شہری اور خاص طور پر تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کریں بلکہ ان کے تنقیدی سوالات کرنے کے حق کی بھی ضمانت دیں وگرنہ دہشت گردی کی مختلف اقسام کا ہم شکار ہوتے رہیں گے اور حکمرانوں کا احتساب محض خواب بن کر رہ جائے گا

متعلقہ عنوان :