موبائل سروسز پر بھاری ٹیکسز معاشی ترقی کے لیے سود مند نہیں، اسٹیٹ بینک

جمعرات 21 جنوری 2016 12:06

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔21 جنوری۔2016ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے موبائل انٹرنیٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار کو پاکستان میں براڈ بینڈ کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج قرار دے دیا ہے۔پہلی سہ ماہی جائرہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے کہاکہ پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں داخل ہونے والی کمپنیوں کو بلند لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے ساتھ مہنگی ڈیوائسز، فکسڈ لائن انفرااسٹرکچر کی پست صورتحال، ٹیلی کام آلات کی درآمد پر عائد ٹیکسوں کی بلند شرح اس شعبے میں سرمایہ کاری اور پہلے سے موجود کمپنیوں کے کاروبار کی توسیع سمیت موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم دور دراز علاقوں تک سہولت کی فراہمی میں چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران براڈ بینڈ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے تاہم کمپنیوں کے درمیان سخت مسابقت اور ٹیکسوں کی بلند شرح کی وجہ سے موبائل فون صارفین کی تعداد کے لحاظ سے براڈ بینڈ کے استعمال میں اضافہ ناکافی ہے، ملک میں موبائل فون کے مجموعی صارفین کی تعداد 13کروڑ تک پہنچ چکی ہے تاہم براڈ بینڈ سروس استعمال کرنے والوں کی تعداد 2کروڑ 12لاکھ تک محدود ہے، اس طرح اب بھی 10کروڑ 30 لاکھ کے قریب صارفین پر مشتمل وسیع مارکیٹ باقی ہے۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ سے قبل ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی پاکستان میں ٹیکسوں سے متعلق اپنے حالیہ جائزوں میں پاکستان میں ٹیکسوں کی بلند شرح، پیچیدہ نظام ، ٹیکسوں کی چھوٹ اور رعایت کے مضمرات کو کاروباری لاگت میں اضافے کی وجہ قرار دے چکے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ”ڈیجیٹل ڈیویڈنڈ“ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں بھی پاکستان کو کنیکٹیوٹی کے لحاظ سے پیچھے رہ جانے والے دنیا کے 5ملکوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 20کروڑ کی آبادی میں سے 83فیصد آبادی اب بھی آف لائن ہے، پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی 12فیصد آبادی تک محدود ہے، انٹرنیٹ کے استعمال کے لحاظ سے بھی پاکستان جنوبی ایشیا اور سب صحارا افریقی ملکوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت زیادہ سے زیادہ 19فیصد آبادی تک محدود ہے۔اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں موبائل فون صارفین کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کا شمار 10بڑے ملکوں میں کیا جاتا ہے تاہم اس وسیع تعداد کے لحاظ سے موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد انتہائی محدود ہے، پاکستان میں ٹیلی ڈینسٹی کی شرح نومبر 2015میں 64.6فیصد ریکارڈ کی گئی۔

اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں موبائل اور براڈ بینڈ کے استعمال میں کمی کی بنیادی وجہ ٹیکسوں کی بلند شرح کے بعد خدمات کا معیار، پیچیدہ پرائس اسٹرکچر اور موبائل ڈیوائسز کی بلند قیمت کو بھی قرار دیا۔ نئی ٹیلی کام پالیسی کے مسودے میں بھی انڈسٹری کے ٹیکسوں کی بلند شرح پر تحفظات کو نظر انداز کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سماجی و معاشی ترقی کیلیے انٹرنیٹ پر ٹیکس عائد نہ کرنے کے عالمی رجحان کے برعکس پاکستان میں موبائل اور براڈ بینڈ پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے، پاکستان میں موبائل فون سروسزپر19.5فیصد جنرل سیلز ٹیکس، 14فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہیں جبکہ موبائل فون ڈیوائسز کی امپورٹ پر 250روپے فی سیٹ ڈیوٹی عائد ہے، پنجاب میں 2 میگا بائٹس فی سیکنڈ رفتار سے اوپر براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس پر 19.5 فیصد اور سندھ حکومت میں براڈ بینڈ کے 1500روپے ماہانہ سے بلوں پر18فیصد ٹیکس عائد کررکھا ہے، وائس خدمات سے متعلق ایکویپمنٹ، سوئچنگ اور راوٴٹنگ ڈیٹا آلات کی درآمد پر 10فیصد ڈیوٹی اور کارپوریٹ آمدن پر 32فیصد انکم ٹیکس عائد ہے۔

اسٹیٹ بینک نے ورلڈ بینک کے جائزے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیاکہ براڈ بینڈ سروسز میں 10فیصد اضافہ شرح نمو میں 1.3 فیصد اضافے کا سبب بنتا ہے، اس لیے موبائل سروسز پر بھاری ٹیکس پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے سود مند نہیں۔

متعلقہ عنوان :