کوئٹہ ،پولیو مہم کامیابی سے اختتام پذیر، چار لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے

بدھ 20 جنوری 2016 22:09

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔20 جنوری۔2016ء ) کوئٹہ میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باوجودگذشتہ ہفتے شروع ہونے والی پولیو مہم کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی مہم میں چار لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے۔ مہم کی کامیابی کا سہرا ڈپٹی کمشنر کوئٹہ داؤد خلجی اور انکی ٹیم کو جاتا ہے اس حوالے سے ڈی سی کوئٹہ کا کہنا ہے کہ مہم کے بعد ہونے والے مانیٹرنگ سروے کے مطابق کوئٹہ میں 93 فیصد بچوں کو پولیو سے بچا ؤ کی ویکسین پلائی گئی۔

جو کہ گذشتہ چار کیمپین کے مقابلے میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ داؤد خلجی کا کہنا ہے کہ اس کیمپین میں سب سے بڑا چیلنج مہم کے تیسرے روز پولیو سینٹر کے باہر پولیس اہلکاروں پر ہونے والا بم دھماکہ تھا جس کے بعد پولیو ٹیموں اور ان کے ساتھ سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو ہمت و حوصلہ دینا تھا تاکہ مہم کو جاری رکھا جا سکے۔

(جاری ہے)

اور بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے انہیں پولیو ویکسین پلائی جا سکے۔

میں نے فرنٹ لائن ورکرز اور سیکیورٹی اہلکاروں سے بات چیت کی اور انہیں ہمت دی اور ڈیڑھ گھنٹے تعطل کا شکار رہنے کے بعد پولیو مہم دوبارہ شروع کی گئی۔ آج کوئٹہ میں کیمپین کی کامیابی کا سہرا انہی پولیو ورکروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو جاتا ہے۔ جو بچوں کو پولیو سے بچانے کے لیے فیلڈ پر نکلے۔ صوبائی حکومت کا پولیس پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد پولیو مہم کو دوبارہ شروع کرنے کے اقدام کو سینیٹر عائشہ رضا ، فوکل پرسن برائے پولیو نے بھی کافی سراہا ۔

داؤد خلجی پولیو مہم کی مانیٹرنگ ، سیکورٹی کی تعیناتی اور انکی تشکیل کے معاملات کو دیکھتے چلے آرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ میں پولیو ورکرز کو تحفظ فراہم کرنا وہ اپنی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ پولیو مہم کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ پولیو مہم کے دوران سرگرم رہنا نہ صرف میری ذمہ داریوں میں شامل ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ یہ میری اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے ۔

میرے ساتھ ساتھ پولیو کے خاتمے کے پروگرام سے منسلک تمام اداروں کے نمائندے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دوران مہم چھوٹے موٹے ناخوشگوارواقعات رونما ہوتے ہیں اور اخبار میں شائع ہوجاتے ہیں۔ جسکی تحقیقات کیں تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ ذاتی مسئلے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔پولیو کے خاتمے کا حقیقی کریڈیٹ انکو جاتا ہے جو فیلڈ پر جاتے ہیں اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔

ٹیموں کو معاوضہ WHOاور حکومت مل کرادا کرتی ہے، یونیسیف کے تعاون سے پولیو ویکسین سے انکاری والدین کو منانے میں کافی مدد ملی ہے۔اور انکاری کیسز میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اس حوالے سے مختلف کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں جو انکاری والدی کو منانے کے لیے بھرپور کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ پولیو مہم کے دوران 8000 سے زائد انکاری بچوں کو پولیو ویکسین پلائی گئی۔ ڈپٹی کمشنر داؤد خلجی پرامید ہیں کہ اگر سب مل کر کام کریں تو کوئٹہ سے پولیو کو شکست دینے میں ضرور کامیابی ہو گی۔

متعلقہ عنوان :