ڈاکٹر عاصم حسین کیس، سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی کی ضمانت میں 30 جنوری تک توسیع کر دی گئی

ہم پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت جرائم کے مقدمات درج کئے گئے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں، عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو

منگل 19 جنوری 2016 17:58

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19 جنوری۔2016ء) انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں سابق صوبائی وزیرِ داخلہ و صنعت و تجارت رؤف صدیقی کی ضمانت میں30 جنوری تک توسیع کر دی ہے۔ اوپن کورٹ میں سابق صوبائی وزیرِ داخلہ و صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے جج صاحبہ سے کہا کہ آخر کب تک ہم جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بھگتتے رہیں گے؟ جس جس جج صاحبان کے پاس یہ مقدمہ پہنچا انہیں خود ناگوار گزرا ہے۔

میں نے اپنے دور میں مکمل انصاف کیا اور بد ترین سیاسی مخالفین کو بھی کبھی سیاسی طور پر پریشان نہیں کیا اور اس کی سزا یہ ہے کہ میں عدالتوں میں پیش ہو رہا ہوں۔ یہ کب تک ہوتا رہے گا؟ اس پر جج صاحبہ نے ریمارکس دیے کہ آپ اطمینان رکھیں۔ آپ نے جرم نہیں کیا تو آپ کو کوئی سزا نہیں دے گا۔

(جاری ہے)

ہم قانون اور شہادت پر فیصلہ دیتے ہیں لیکن آسمانوں پر بھی ایک عدالت ہے جو اﷲ کی عدالت ہے۔

اس پر رؤف صدیقی نے بے ساختہ کہا کہ میں آپ کے اس جملے سے متفق ہوں۔ اب مجھے کوئی فکر نہیں، جو چاہے سزا دے۔ میرے لئے میرا اﷲ ہی کافی ہے۔ عدالت سے باہر رؤف صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جھوٹے، بے بنیاد اور مضحکہ خیز ایف آئی آرز کی وجہ سے میں پچھلے 7 ماہ سے میں ایک عدالت سے دوسری عدالت دوسری عدالت سے تیسری عدالت جا رہا ہوں۔ ہم پرسننے اور تالیاں بجانے کے جرم میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت اُن جرائم کے مقدمات درج کئے گئے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔

رؤف صدیقی نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس ڈرٹی پالیٹکس کو بند کرے اور اتنا ہی ظلم کریں جتنا کل وہ سہہ سکیں۔ اقتدار کے سنگ آسن پر وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی دانست میں عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو رسوا کر رہے ہیں لیکن دراصل اپنے ہی خلاف ایسی ایف آئی آر درج کرا رہی ہیں جس کا جواب کل ان سے لیا جائے گا۔ رؤف صدیقی نے کہا کہ سیاسی بنیاد پر مجھ سمیت دیگر رہنماؤں پر دہشت گردی کے جو مقدمات درج کئے گئے ہیں اور عدالتوں میں پیشیاں ہو رہی ہیں اس سے سارا نظام مشکوک ہو رہا ہے اور اصل دہشت گردوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتے ہوئے محسوس ہونا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :