سندھ اسمبلی اجلاس، تھر میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے ایم کیو ایم کی تحریک التواء خلاف ضابطہ قرار

پیر 18 جنوری 2016 22:30

کراچی ۔ 18 جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔18 جنوری۔2016ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو تھر میں غذائی قلت کے باعث بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کی خواتین ارکان ہیر اسماعیل سوہو اور نائلہ منیر کی تحریک التواء خلاف ضابطہ قرار دے دی گئی۔ حکومت کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ تھر میں غذائی قلت یا قحط کی صورت حال نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کی خواتین ارکان نے اپنی تحریک التواء میں کہا کہ 15 جنوری 2016ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق تھر میں غذائی قلت سے 3 بچے ہلاک ہوگئے، اب ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 71 ہو گئی ہے، 95 بچے اسپتالوں میں داخل ہیں، حکومت آخر تھر میں قحط سالی پر قابو پانے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کرتی ہے۔ وزیر خوراک سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ تھر میں قحط سالی کی پوزیشن نہیں ہے، یہاں بارشیں بھی ہوئی ہیں اور فصلیں بھی ہوئی ہیں، یہ اور بات ہے کہ جوار کی فصل اچھی نہیں ہوئی اور گنوار کی فصل فروخت نہیں ہوئی، 65 لاکھ جانوروں کے چارے کا بھی مسئلہ ہے لیکن گذشتہ 8 سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے بہت تبدیلی آئی ہے اور حالات بہتر ہوئے ہیں، تھر کے لوگوں کو صحت اور پینے کے صاف پانی کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، دیگر منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، اگرچہ بہتری کی مزید ضرورت ہے، انسانی زندگی کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، ایک بھی بچے کی موت افسوس ناک ہے۔

(جاری ہے)

سینئر وزیر تعلیم و پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ تھر میں ساڑھے 4 لاکھ گھرانوں کو 7 مرحلوں میں مفت غذا فراہم کی گئی، غذا کی فراہمی کا 8 واں مرحلہ بھی جاری ہے، یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ تین بچوں کی اموات کہاں ہوئیں اور ان کے اسباب کیا تھے۔ قبل از وقت زچگی بھی تھر کا ایک مسئلہ ہے، غذائی قلت ماں کی طرف سے ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں 34 بنیادی مراکز صحت، تعلقہ اسپتال، آر ایم سی اور ڈسٹرکٹ اسپتال کام کر رہے ہیں، شہروں کے مقابلے میں وہاں کے لوگ پتھر کے دور میں رہتے ہیں لیکن گذشتہ پانچ سال کے دوران تھر میں 1200 کلو میٹر سڑکیں بنائی گئیں، مجھے بھی بچوں کی موت کا احساس ہے، تھر میں قحط کی صورت حال نہیں ہے اور بچے غذائی قلت سے نہیں مر رہے ہیں۔

آغا سراج درانی نے تحریک التواء پر اپنی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس تحریک التواء میں ایک سے زیادہ ایشوز اٹھائے گئے ہیں، ایک ایشو بچوں کی ہلاکت کا ہے اور دوسرا ایشو غذائی قلت کا ہے، لہذا یہ تحریک خلاف ضابطہ ہے۔ قبل ازیں ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین خان نے اپنے توجہ دلاوٴ نوٹس میں کہا کہ تھرپارکر میں 215 میں سے صرف 30 ڈسپنسریز کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے، باقی ڈسپنسریز کو بجٹ کیوں نہیں دیا جاتا۔

وزیر صحت جام مہتاب حسین ڈاہر نے کہا کہ بجٹ بلڈنگز کو نہیں دیا جاتا بلکہ فعال اداروں کو دیا جاتا ہے، ان ڈسپنسریز میں ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف نہیں تھا، ہم نے ڈاکٹرز کے انٹرویوز کر لیے ہیں اور دیگر اسٹاف بھی بھرتی کر رہے ہیں، جیسے ہی یہ کام مکمل ہو جائے گا، ان ڈسپنسریز کے لئے بجٹ بھی جاری کر دیا جائے گا۔ اجلاس میں خاتون رکن سمیتا افضال کی تحریک استحقاق بھی خلاف ضابطہ قرار دے دی گئی۔

تحریک استحقاق میں کہا گیا تھا کہ سندھ اسمبلی کا اجلاس قواعد میں دیئے گئے شیڈول کے مطابق نہیں بلایا گیا۔ سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے اس تحریک استحقاق کی مخالفت کی اور کہا کہ اجلاس حکومت بلاتی ہے۔ اجلاس آئین کے مطابق ہر پارلیمانی سال میں 100 دن چلانا ضروری ہوتا ہے، اگر اجلاسوں میں وقفہ ہو جائے تو اس سے کسی رکن کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اسپیکر نے یہ تحریک استحقاق خلاف ضابطہ قرار دے دی۔