کسی شخص یا ادارے کی طرف سے آئینی اور قانونی اختیار سے تجاوز پر عدلیہ کے لیے مداخلت ناگزیرہوجاتی ہے،چیف جسٹس

صوبائی حکومتوں یا صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین کسی تنازعہ کی صورت میں سپریم کورٹ کو کُلّی اور حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہے، قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناناعدلیہ کی ذمہ داری ہے،جسٹس انور ظہیرجمالی کا خطاب

پیر 18 جنوری 2016 21:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 جنوری۔2016ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس انورظہیر جمالی نے کہاہے کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناناعدلیہ کی ذمہ داری ہے، کسی شخص یا ادارے کی طرف سے اپنے آئینی اور قانونی اختیار سے تجاوز کرکے بنیادی حقوق کی پامالی یا خلاف ورزی کا مرتکب ہونے پر عدلیہ کے لیے یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے اس کا تدارک کرے، صوبائی حکومتوں یا صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین کسی تنازعہ کی صورت میں سپریم کورٹ کو کُلّی اور حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہوتا ہے،عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف قانون کی تشریح کرے بلکہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں فریقین کے حقوق کا تعین کرتے ہوئے اس پہ فیصلہ صادر کرے، ہماری ترقی اس امر میں مضمر ہے کہ ہم خواہ ہم کسی ادارے میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں یا ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہوں،اپنا کا م پوری ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیں،پیر کوسندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے ’’قومی لیڈرشپ پروگرام‘‘ کے شرکاء اور اساتذہ کرام کے سپریم کورٹ کے مطالعاتی دورہ کے موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ مدرسۃالاسلام میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلباء کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ ایک ایسے اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا شمارجنوبی ایشیاء کے قدیم ترین مسلم مدارس میں ہوتا ہے اس ادارے کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے عظیم رہنما قائدِاعظم محمد علی جناح 1887ء تا 1892ء تک اس ادارے میں زیرتعلیم رہے،بعد میں قائدِاعظم کی کاوشوں سے ہی 1943ء میں کالج کا درجہ ملا جبکہ حال ہی میں یعنی/12 2011ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ ہر شخص اور ہر ادارے کو ہمیشہ اپنی بقاء کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت رہتی ہے اورsurvival of the fittestکا اصول پوری شُدومد کے ساتھ کارفرما ہے۔ اس تناظر میں سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی پر بطور ادارہ، اس میں درس و تدریس سے منسلک افراد اور یہاں زیرِ تعلیم طلباء سب کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ قائدِاعظم کے مادر علمی کے نام کو مزید روشن کریں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتی ہے کیونکہ اس کا مستقبل نوجوانوں سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہماری ترقی اس امر میں مضمر ہے کہ ہم ، خواہ ہم کسی ادارے میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں یا ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہوں،اپنا کا م پوری ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیں۔انہوں نے کہاکہ یہاں پر موجود طلباء ہماری نوجوان نسل کی نمائندگی کرتے ہیں لہٰذا میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ زمانہ طالبعلمی میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قوتیں حصولِ علم میں مذکور کریں تاکہ مستقبل میں ایک کامیاب پیشہ ور کے طور پر ابھریں اور اپنے معاشرے کی خوشحالی اور ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے کہاکہ آپ میں سے اکثریت واقف ہو گی ہمارے ملک پاکستان کا نظامِ 1973ء کے تحریری آئین کے تحت چلایا جاتا ہے۔ ’’تقسیمِ اختیارات‘‘ کے اصول کے تحت حکومتی اختیارات کومقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آئین کے تحت مقننہ قانون سازی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ انتظامیہ ان قوانین پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہے جبکہ عدلیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہ صرف قانون کی تشریح کرے بلکہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں فریقین کے حقوق کا تعین کرتے ہوئے اس پہ فیصلہ صادر کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ اپنے آئینی اور قانونی اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے کوئی ایسا عمل سرانجام دے جس سے بنیادی حقوق کی پامالی یا خلاف ورزی ہوتی ہو تو عدلیہ کے لیے یہ ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے اس کا تدارک کرے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 184تا 188کے تحت سپریم کورٹ کو ابتدائی(Original)، اپیل(Appellate)، مشاورتی (Advisory)اور نظرثانی (Review)اختیارِ سماعت حاصل ہے۔انہوں نے کہاکہ اعلیٰ ترین عدالت ہونے کی حیثیت سے افراد کے مابین مقدمات کی سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ کو حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہوتا ہے اور طرح صوبائی حکومتوں یا صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین کسی تنازعہ کی صورت میں اسے کُلّی اور حتمی اختیارِ سماعت حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوان :