بین الخلیج امن برقرار رکھنا تائیوان کی نئی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے

نئی قیادت نے 1992کے اتفاق رائے سے برملا انکار کبھی جرات نہیں کی ہے ٹسائی وین جانتی ہیں کہ تائیوان کی آزادی کی وکالت کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے

اتوار 17 جنوری 2016 17:21

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 جنوری۔2016ء/شنہوا)اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پراگریسوپارٹی کے امیدوار ٹسائی لنگ ۔ وین کو گذشتہ روز تائیوان کا نیا لیڈر منتخب کرلیا گیا ، اس خبر کی وجہ سے سرزمین چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات کے فروغ کے بارے میں خدشات اور گذشتہ آٹھ برسوں میں خلیج تائیوان کے آر پار امور سے متعلق سرزمین کی پالیسیوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں ،لوگوں کو اس قسم کے نتائج کے بارے میں کس قسم کا ردعمل اور خیال ظاہر کرنا چاہئے ، پہلی بات جسے نوٹ کیا جانا چاہئے کہ یہ ایک ایسا نتیجہ ہے جو کثیر اور پیچیدہ عوامل کی وجہ سے اثر انداز ہوا ہے جن میں جزیرے کی معیشت ،عوا م ذریعہ معاش اور نوجوانوں کی ذہنیت انتہائی فیصلہ کن تھی ،بین الخلیج تعلقات بہتر بنانے میں زبردست مسلمہ کامیابیوں کے باوجود تائیوان کو کیو منٹنگ ( کے ایم ٹی ) کے گذشتہ آٹھ سالہ دور اقتدار میں اقتصادی تنزلی دولت کے بڑھتے ہوئے فرق ذریعہ معاش میں اطمینان بخش بہتری اور نوجوان نسل میں احساس محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں رائے نادہندگان نے اپنی امیدیں تائیوان کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے کسی نئے اور نئی برسراقتدار جماعت پر مذکور کیں ،ثانیاً بین الخلیج تعلقات برقرار ر کھنا اور فروغ دینا تائیوان میں قومی دھارے کی رائے عامہ رہی ،انتخابات سے قبل کئی رائے عامہ کے جائزوں میں بتایا گیا کہ تائیوان کے عوام کی اکثریت کے ایم ٹی کی بین الخلیج پالیسیوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور امیدکرتی ہیں کہ سیاسی اکھاڑے میں کسی تبدیلی سے تعلقات کا پر امن فروغ ہو گا حتیٰ کہ ٹسائی نے بھی طرفین کے درمیان طے پانے والے 1992کے اتفاق رائے سے برملا انکار کرنے کی جرات نہیں کی ہے ، اس اتفاق رائے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ چینی سرزمین اور تائیوان ایک چین کی ملکیت ہیں ، اس کے برعکس اس نے جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی اور جان بوجھ کر ”تائیوان کی آزادی “کے موضوع سے گریز کیا ہے ۔

(جاری ہے)

تائیوان نے بڑی ہوشیاری سے کام لیا کیونکہ اسے پتا تھا کہ ”تائیوان کی آزادی “کی وکالت خطرناک مہم ہو گی ،ناکامی کے باوجود سرزمین چین کی بین الخلیج پالیسیوں نے جو خلیج کے اطراف میں پرامن تعلقات کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ، اس ضمن میں تائیوان کی رائے عامہ کی رہنمائی کی ہے کہ عوام آزادی کا حصول نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ ایسے کرنے کی جرات کرسکتے ہیں چونکہ تائیوان کی رائے دہندگان کی اکثریت نے ڈی پی پی کو منتخب کیا ہے اس لیے ڈی پی پی کو چاہئے کہ وہ بین الخلیج پرامن تعلقات کو جوں کا توں برقراررکھنے کو اپنی اولین ذمہ داری خیال کرے ، چین کی نئی قیادت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ جزیرے کے مسائل کو بین الخلیج مستحکم صورتحال کے بغیر حل کرے ،اگر کوئی علیحدگی پسند کے موقف یا علاقائی استحکام کے لیے مشکل پیدا کرنے والے کے طور پر اقدام پر پابندرہتا ہے وہ تائیوان کا استحکام اور ترقی کے خالی خولی بات ہو گی اور تائیوان کے مایوس رائے دہندگا ن آئندہ انتخابات کے دوران ایسے تازیانے کو اٹھا باہر پھینک دیں گے ، اس سے کوئی انکار ممکن نہیں کہ ڈی پی پی کا برسراقتدار آنابین الخلیج تعلقات کے لیے سنگین چیلنج ہے تا ہم سر زمین چین ایسی کسی علیحدگی پسندانہ کوشش کو ناکام بنانے کی صلاحیت اور عزم رکھتی ہے ،اگر ڈی پی پی جوں کی توں کی صورتحال کو خلوص نیت سے برقراررکھنا چاہتی ہے تو اسے اس اہم سوال کا واضح جواب دینا ہوگا آیا وہ 9192کے اتفاق رائے کی حمایت کرتی ہے یا نہیں ۔

ٹسائی اور ان کی ڈی پی پی کس سمت میں جاتے ہیں ، خلیج کے دونوں اطراف کے محب وطن اسے دیکھ رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی برادری بھی دیکھ رہی ہے ۔