فیصل آباد، سبزیوں ‘ پھل اور زرعی اجناس کی 40فیصد شرح نامناسب ہینڈلنگ‘ سٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کمزوریوں کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہے،وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی

پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ میں بہتری،ان کی ویلیو ایڈیشن اور پراسیسنگ کے ذریعے اس ضیائع کوروکنے سے کسان کی آمدنی بڑھائی جاسکتی ہے،ڈاکٹر پروفیسر اقرار احمد خان کی وفد سے گفتگو

ہفتہ 16 جنوری 2016 14:26

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 جنوری۔2016ء) پاکستان میں سبزیوں ‘ پھل اور زرعی اجناس کی 40فیصد شرح بعد از برداشت نامناسب ہینڈلنگ‘ سٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کمزوریوں کی وجہ سے صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہوجاتی ہے لہٰذا پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ میں بہتری لاتے ہوئے ان کی ویلیو ایڈیشن اور پراسیسنگ کے ذریعے اس ضیائع کوروکنے سے کسان کی آمدنی بڑھائی جاسکتی ہے ،زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین سندھ میں پیاز اور مرچوں کی نئی ورائٹیاں متعارف کروانے سمیت فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ کیلئے سندھی کاشتکاروں اور زرعی ماہرین کی معاونت کریں گے۔

اس عزم کااظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے سندھ ایگریکلچرگروتھ پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ حیدرآباد سے ڈاکٹر ذوالفقار یوسف زئی اور غلام مصطفی ناگراج کی قیادت میں یونیورسٹی کا دورہ کرنے والے 11رکنی وفد سے ملاقات میں کیا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہاکہ ہرچند ستمبر تا دسمبرکے دوران پنجاب سبزیوں کی ضروریات کیلئے سندھ کا بڑا خریدار ہوتا ہے تاہم بھارت سے ٹماٹر اوردوسری اجناس کی درآمد سے مقامی کاشتکاروں کی آمدنی متاثر ہورہی ہے لہٰذتجارتی توازن برقرار رکھنے کیلئے اُنہی ٹرکوں پرپاکستانی اشیاء کی بھارت برآمد کا راستہ نکالا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ آلو کے مقابلہ میں پیاز اور مرچوں کی بعد از برداشت عمر بہت کم ہوتی ہے لہٰذااس دوران اگر ان کی بہتر مینجمنٹ کے ذریعے برآمدیقینی بنالی جائے تو کاشتکاروں کے منافع کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر اقراراحمد خاں نے کہا کہ سندھ میں پیدا ہونیوالی کھجوروں کوچھواروں سے بڑھ کر مزید ویلیو ایڈیشن سے ہمکنار کرلیا جائے تو اس کے برآمدی حجم کوکئی گنا بڑھاکرکثیرزرمبادلہ کمانے کی راہ نکالی جا سکتی ہے ۔

وائس چانسلرنے کہاکہ سندھ میں گنے ‘ پیاز اور مرچوں کے کاشتکاروں کی طرح امسال پنجاب میں کپاس اور چاول کے کاشتکاروں کو مارکیٹ میں استحصال کا سامنا ہے لہٰذا مارکیٹنگ سسٹم کو اگر پوری طرح فعال کر لیا جائے توپیداواری لاگت میں کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ سے اس کی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار یوسف زئی نے کہاکہ سندھ میں پیاز اور مرچوں کی 15سے زائد ورائٹیاں کاشت کی جا رہی ہیں جن کے جینیاتی تنوع اور پیداواری ٹیکنالوجی کا جائزہ لینے کیلئے یونیورسٹی سائنس دان ہماری مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ سندھ میں عمومی طو رپر 80ہزار ایکڑ کے لگ بھگ مرچیں کاشت کی جاتی ہیں تاہم امسال اڑھائی لاکھ ایکڑ پر کاشت کی وجہ سے ضرورت کے مقابلہ میں سپلائی زیادہ ہوجانے کے نتیجہ میں کسان کو خاصا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ انہوں نے یونیورسٹی قیادت پر زور دیا کہ پیاز اور مرچوں کی بعد از برداشت مینجمنٹ میں رہنمائی کی جائے۔ ڈاکٹر ذوالفقار یوسف زئی نے کہا کہ سال 2015ء کے دوران ملک میں 26ارب روپے کا بھارتی ٹماٹر درآمد کیا گیا جس سے مقامی کاشتکارکے مسائل میں اضافہ ہوا۔

غلام مصطفی ناگراج نے کہا کہ سندھ سے زیادہ تر پیاز مشرق وسطی ‘ سری لنکا اور سنگاپور میں برآمد کیا جاتا ہے تاہم یورپی مارکیٹ میں پہنچنے کیلئے اس کی گریڈنگ اور بعد از برداشت ٹیکنالوجی میں بہتری لاکرفائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔سندھی کاشتکاروں کے وفد نے بعد ازاں یونیورسٹی کی پوسٹ ہارویسٹ لیبارٹری میں زرعی اجناس کی بعد از برداشت مینجمنٹ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ڈاکٹر احمد ستار خاں‘ ڈاکٹر راحیل انور اور ڈاکٹر اظہر کی طرف سے دی جانیوالی بریفنگ میں بھی حصہ لیاجس میں اتفاق کیا گیا کہ یونیورسٹی سائنس دان پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ میں سندھی کاشتکاروں اور اداروں کی معاونت کریں گے۔

وفد میں زاہد درانی‘ محمد اعظم رند‘ سید ندیم شاہ‘ محفوظ ارسانی‘ عبدالمجید مرجات‘ نبی بخش ساتھیو‘ رسول بخش لغاری اور غلام مصطفی انہرشامل تھے۔

متعلقہ عنوان :