قطر سے گیس کے لئے معاہدہ کیا جا رہا ہے، قطر کے جہاز بڑے ہیں، قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے، مون سون کے علاوہ یہ جہاز پاکستان آ سکیں گے،4نئی برانڈ کے ایل این جی ٹگ 25ملین یو ایس ڈالر کی مد میں دو سال لیز پر لئے ہیں

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے جہاز رانی و بندر گاہوں کو پورٹ قاسم اتھارٹی کے حکام اور دیگر کی بریفنگ

بدھ 13 جنوری 2016 22:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔13 جنوری۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے جہاز رانی و بندر گاہیں کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ قطر سے گیس کے لئے معاہدہ کیا جا رہا ہے قطر کے بڑے جہاز ہیں، قطر حکام کے ساتھ میٹنگ کی گئی ہے، مون سون کے علاوہ ان کے جہاز یہاں آ سکیں گے،4 نئی برانڈ کے ایل این جی ٹگ 25ملین یو ایس ڈالر کی مد میں دو سال لیز پر لئے ہیں تاکہ ایل این جی جہازوں کی بہتر اور محفوظ ہینڈلنگ کی جا سکے جبکہ چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو معاملات اس حوالے سے ایک رپورٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کرے گی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے جہاز رانی و بندر گاہوں کاا جلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد علی خان سیف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پورٹ قاسم اتھارٹی سے LNGٹرمینل و دیگرمعاملات ،کراچی پورٹ ٹرسٹ سے گہرے پانی کے منصوبہ و کے پی ٹی آفیسرز کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملات اور گوادر پورٹ اتھارٹی سے پری اور پوسٹ سی پیک منصوبہ جات اور زمین کے حصول کیلئے کی گئی ادائیگیوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین پوسٹ قاسم اتھارٹی نے قائمہ کمیٹی کو ایل این جی ٹرمینل و پورٹ قاسم اتھارٹی کے دیگر معاملات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پورٹ قاسم بندرگاہ کا سنگ بنیاد 1976میں رکھا گیا۔اس کو نیشنل ہائی وے اور ریلوے لائن کے ذریعے ملایا گیا ہے اس کا چینل 45کلو میٹر پر مشتمل ہے پرائیویٹ سیکٹر اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ہم رائیلٹی حاصل کرتے ہیں۔

جہاز کو چینل کے اندر آنے کیلئے دو گھنٹے لگتے ہیں اس لئے دوسرے چینل کی تعمیر پر کام جلد شروع ہو گا۔2004میں CNG کی بہت زیادہ ضرورت تھی گیس پوری نہیں ہو رہی تھی اس لئے LNGٹرمینل کا منصوبہ شروع کیا گیا ور یہ 11ماہ کی مدت میں مکیل ہو گیا اور یہ مکمل طور پر کام ہو رہا ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے میڈیا میں بہت سی خبریں آرہی ہیں بڑے جہاز یہاں آ نہیں سکتے جس پر چیئرمین پی کیواے نے بتایا کہ سال میں 1200جہازوں کی اس بندرگاہ پر ٹریفک ہوتی ہے۔

اور اب تک LNG 17کارگو جہاز یہا ں پر آ چکے ہیں پہلا کارگو جہاز یہاں مارچ 2015 میں آیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ 4 نئی برانڈ کے ایل این جی ٹگ 25ملین یو ایس ڈالر کی مد میں دو سال لیز پر لئے ہیں تاکہ ایل این جی جہازوں کی بہتر اور محفوظ ہینڈلنگ کی جا سکے۔جس پر کسٹم حکام نے 15ملین ڈالر کی ڈیوٹی عائد کر دی ہے قائمہ کمیٹی سے درخواست کی اس معاملے میں مدد کرے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قطر سے گیس کے لئے معاہدہ کیا جا رہا ہے قطر کے بڑے جہاز ہیں قطر حکام کے ساتھ میٹنگ کی گئی ہے مون سون کے علاوہ ان کے جہاز یہاں آ سکیں گے۔تین پاسنگ بے بنائے جائیں گے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی باقی ممالک کے مقابلے میں بہت ذیادہ ہے اگر یہ کم کر دی جائے تو بہت سے جہاز یہاں لنگر انداز ہونگے۔ملک و قوم کو فائدہ ہو گا۔

جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ ٹگ کیلئے دو سال کا معاہدہ کرنے کی بجائے اپنے ہی ٹگ خرید لئے جاتے تو اچھا تھا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد علی خان سیف کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پاسنگ بے کی تعمیر کی فنڈنگ بڈر کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کی کل تعداد 2200کے قریب ہے غیر قانونی بھرتیاں بھی کی گئی تھیں اور107ملازمین جن میں ڈائریکٹر سے سیکورٹی گارڈ تھے کو فارغ کر دیا گیا۔

پانچ لوگوں نے عدالتوں سے حکم امتناہی حاصل کر رکھا ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے تجویز دی کہ تینوں بندرگاہوں کی اتھارٹیوں کا اکھٹا بلانے کی بجائے ایک ایک کو بلا معاملات کا کر تفصیلی جائزہ لیا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی کیواے آئندہ اجلاس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرری کا طریقہ کار ،عدالتوں میں کیسز کی تعدا د ،ملازمین کی تعدا اور کام کے طریقہ کار بارے تفصیل سے آگاہ کریں اور ہر اتھارٹی کے معاملات کو سمجھنے کیلئے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں بلا کر معاملات بارے بریفنگ لی جائے گی۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں کے KPTآفیسرز کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیاا ور چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو معاملات اس حوالے سے ایک رپورٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کرے گی۔چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ نے قائمہ کمیٹی کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کے معاملات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ 1887میں قائم ہوئی تھی اور پاکستان کی60فیصد تجارت یہیں سے ہوتی ہے۔

ہمارا ایک ٹرسٹ ہے جس کی 11ممبران ہیں اور بورڈ کی میٹنگ ایک ماہ میں دو دفعہ ہوتی ہے۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چینل کی لمبائی11.5کلومیٹر ہے اور اس کی گہرائی13میٹر ہے۔اس بندرگاہ پر تیس برتھ بنائے گئے ہیں دو کنٹینر ٹرمینل ہیں ۔2008-09میں 2294جہاز آئے تھے اور 2014-15میں1732آئے ہیں۔ یہاں پر کارگو میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب بڑے جہاز آ رہے ہیں ۔

اس لئے جہازون کی تعدا کم ہو رہی ہے۔گہرے پانی میں ایک لاکھ ٹن والا جہاز بھی آ سکے گا۔ٹرمینل کپیسٹی کو بڑھایا جائے گا چینل کی لمبائی میں اضافہ کیا جائے گا۔گہرے پانی کیلئے چار سیگمنٹ میں کام کیا جا رہا ہے ۔سیکرٹری جہاز رانی و بندرگا ہ نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ہاربر کراسنگ کے منصوبے پر کام کیا جائے گا جس سے پورٹ کو نادرن ہائی وے تک ملایا جائے گا۔

یہ پل انتہائی خوبصورت ہو گا۔BOT کے تحت اس منصوبے پر کا ہو گا انہوں نے کہا کہ تجارتی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زدیادہ بندرگاہیں قائم کی جائیں اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ میں361بندرگاہیں ہیں۔رکن کمیٹی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ جن صوبوں میں پوٹینشل ہے وہاں منصوبے شروع کئے جائیں کیٹی بندر پر بھی کام کیا جائے اس سے کراچی کا بوجھ بھی کم ہو گا اور روزگار بھی مہیا ہو گا۔

جس پر وفاقی وزیر کامران مائیکل نے کیٹی بندر کے حوالے سے سٹڈی کروانے کی یقین دہانی کرائی۔ چیئرمین کمیٹی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ سے بھی ملازمین کی تعداد مینیجمنٹ کے کام کا طریقہ کار،آمدن و اخراجات،آڈٹ و دیگر معالات بارے آئندہ اجلاس میں تفصیلات طلب کرلیں۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے قائمہ کمیٹی کو گواد رپورٹ میں سی پیک کے منصوبہ جات اور زمین کی خریداری کی ادائیگی کے معاملات کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ گوادر سی پیک کے منصوبہ جات 2013سے2030تک کیلئے ہیں پہلے فیز کیلئے دس منصوبوں کی منظوری فروری2014میں ہو چکی ہے اور پانچ مزید منصوبوں کو 2015میں شامل کر لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ گوادر کی تعمیر کا کام2000میں شروع ہوا تھاپہلا فیز2005میں مکمل ہو گیا تھا اور اس بندرگاہ مین پہلا کارگو 2008میں آیا تھا یہاں پانی او ر بجلی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اور سی پیک کے حوالے سے 13ارب امریکی ڈالر کے منصوبہ جات ہیں ۔سی پیک کے منصوبہ معاہدہ2013میں ہوا تھا اور اس کو مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔پانی کی سکیمیں ،ہسپتال کا قیام ،صنعتی پارک کی تعمیر،کول پاور پلانٹ،نیو ایئر پورٹ،LNGٹرمینل،بریک واٹر ،فری زون میں ترقیاتی کام وغیرہ کے منصوبے پہلے فیز میں مکمل کیئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمینل کے ساتھ700کلومیٹر پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہے۔

چیئرمین جی پی اے نے کہا کہ پانی وبجلی کے مسائل کی وجہ سے 20سے 22جہاز سال میں یہاں آتے ہیں۔یہاں سڑکیں بھی موجود نہیں ہیں بجلی ایران سے آتی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی پیک منصوبوں کے حوالے سے جو فنڈنگ کی جا رہی ہے اس کی تفصیلات قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائیں نان سی پیک منصوبہ جات کی تفصیلات سے بھی قائمہ کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کیا جائے ۔

اراکین کمیٹی کی متفقہ رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ گوادر میں پانی کے مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جائے گا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زمین کی خریداری کے حوالے سے ادائیگیوں کے مسائل بھی میڈیا میں رہے ہیں۔ ان بارے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے جس پر چیئرمین گوادر پورٹ نے کہا کہ 30فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ گوادر میں کمیٹی کا اجلاس رکھ کر معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔

کمیٹی گوادر پورٹ کا دورہ بھی کرے گی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گوادر سے کراچی تک فیری سروس جلد شروع کر دیا جائے گا۔کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز مس نسیمہ احسان،میر کبیر احمد محمد شاہی،نہال ہاشمی،تاج حیدر اور مس سسی پلیجو کے علاوہ وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ کامران مائیکل ،سیکرٹری جہاز رانی چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی ،چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ ،چیئرمین پورٹ قاسم اتھارٹی کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔