ایران میں نابالغ لڑکیاں سزائے موت کی منتظر... دنیا خاموش تماشائی

پیر 11 جنوری 2016 19:56

تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 جنوری۔2016ء ) ایران کی جیلوں میں درجنوں کم سن (نابالغ) لڑکیاں اپنے خلاف سزائے موت کے احکامات پر عمل درآمد کے انتظار میں بیٹھی ہیں، ان میں بعض لڑکیوں کے جرائم ایسے ہیں جن پر وہ سزائے موت کی مستحق نہیں بنتی ،ساری دنیا اس قتل عام کے لیے تماشائی بن کر کھڑی ہے جس کا ایرانی جیلوں میں موجود یہ نوجوان لڑکیاں انتظار کر رہی ہیں۔

برطانوی اخبار گارڈین نے ایرانی جیلوں میں گرفتار بعض کم سن لڑکیوں کی شناخت کر لی ہے، جب کہ بعض لڑکیوں کی تصاویر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر عائد الزامات بھی جان لیے ہیں۔بین الاقوامی کنونشن، انسانی حقوق کے منشور اور انسانوں سے متعلق بین الاقوامی قانون بچوں کی سزائے موت پر (خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں)عمل درآمد پر پابندی عائد کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ دنیا میں بہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیں درحقیقت سزائے موت کو ہی تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور دنیا کے ملکوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ ان پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 6 (پیرا 5) میں کہا گیا ہے کہ " اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی جانب سے مرتکب جرائم پر سزائے موت کا فیصلہ سنانا جائز نہیں، اور حاملہ خواتین کے خلاف بھی اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا، اور یہ ہے وہ تقریبا وہ ہی متن ہے جو متعدد بین الاقوامی منشوروں اور معاہدوں میں موجود ہے، ان میں "بچوں کے حقوق کا معاہدہ" بھی شامل ہے جسے اقوام متحدہ نے 1990 میں منظور کیا تھا۔

"گارڈین" اخبار نے ایران میں سزائے موت کی منتظر کم سن لڑکیوں کی ڈراؤنی کہانیوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ ان لڑکیوں میں 17 سالہ ماسہ بھی جو اپنی پھانسی کا انتظار کر رہی ہے۔ اس پر ایک نوجوان کے ساتھ (جس کے ساتھ اس کا محبت کا تعلق تھا) بھاگ جانے کا الزام تھا۔ ماسہ کے والد نے اس نوجوان کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اخبار کی جانب سے سامنے لایا گیا دوسرا کیس ایرانی لڑکی شقائق کا ہے جس کی عمر صرف 15 سال ہے۔ یہ لڑکی تہران میں ایک دکان پر مسلح حملے کے الزام میں ایک سال سے جیل کی ہوا کاٹ رہی ہے۔ شقائق اور اس کا دوست چوری کی غرض سے دکان میں داخل ہوئے تھے تاہم پولیس کے پہنچنے پر اس کا دوست فوری طور پر فرار ہو گیا اور وہ اکیلی گرفتار کر لی گئی۔