پاکستان، چین اور افغانستان جغرافیائی مواقع کو ”جیو اکنامکس“ میں تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں

مقررین کا تیسرے چین، افغانستان، پاکستان مکالمے میں اظہار خیال

پیر 11 جنوری 2016 16:54

اسلام آباد ۔ 11 جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔11 جنوری۔2016ء) خطے کے قریبی ہمسایہ ممالک پاکستان، چین اور افغانستان علاقائی اور اقتصادی تعاون کے فروغ اور جغرافیائی مواقع کو ”جیو اکنامکس“ میں تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جس سے نہ صرف تینوں ممالک بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ اس بات کا اظہار پیر کو یہاں مقررین نے تیسرے چین، افغانستان، پاکستان مکالمے میں کیا جس کا اہتمام ”کونریڈ ایڈینارسٹفٹنگ“ نے ”افغانستان میں امن کے لئے جستجو : ہمسایہ ممالک کا کردار“ کے موضوع پر کیا تھا۔

مکالمہ میں تینوں ممالک کے ممتاز سیاستدانوں، دانشوروں اور مفکرین نے شرکت کی۔ مقررین نے تینوں ممالک پر خطے میں پائیدار امن و ترقی کے لئے تعاون کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین تین قریبی ہمسایہ ممالک ہونے کے ناطے علاقے میں امن و ترقی کے فروغ میں مشترکہ دلچسپی اور مفادات رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام سے تینوں ممالک اپنے قدرتی اسٹریٹجک مفاد کو بروئے کار لا کر اقتصادی ثمرات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پرامن ہمسائیگی کی پالیسی کی جڑیں قائداعظم کے ”اندرونی امن اور بیرونی امن“ کے فرمان میں پیوستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام اور دوسرے ممالک کے داخلی امور میں عدم مداخلت ہماری اپروچ کے بنیادی اجزاء ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان، پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور دوطرفہ تعلقات، مذہب، لسانیت، تاریخ، جغرافیہ کے مشترکہ بندھن پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ افغانستان میں گزشتہ 35 سال سے طویل تصادم کی بناء پر وہاں عوام کو درپیش مشکلات کے علاوہ بھرپور ترقی کے ثمرات سے مستفید نہیں ہوا جا سکا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف وسیع تر تجارت اور توانائی روابط استوار ہوں گے بلکہ بین العلاقائی تبادلوں کو بھی فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوطرفہ روابط کو تقویت دیتا رہے گا اور وہ افغان مفاہمتی عمل میں بھی سہولت پیدا کرنے کے لئے پرعزم ہے جس کا مقصد افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ مفاہمتی عمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ عمل افغان قیادت میں اور افغان عوام کی حمایت کا حامل ہونا چاہئے کیونکہ بیرونی طور پر مسلط کردہ کوئی بھی حل نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی پائیدار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین اور امریکاکا کردار بنیادی طور پر مفاہمت کے عمل میں سہولت پیدا کرنا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ سیاسی مفاہمت نوعیت کے لحاظ سے ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں وقت، صبر و تحمل اور سب کے لئے سود مند حل پر پہنچنے کے لئے فریقین کی طرف سے گنجائش درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم الشان منصوبہ بین العلاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے معاون ہوگا۔

اس منصوبے کو بجا طور پر ”گیم چینجر“ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ روزگار کے مواقع، اقتصادی نمو اور ترقی کے ذریعے ہمارے عوام کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ”تاپی“ اور ”کاسا 1000“ جیسے منصوبے توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ مضبوط علاقائی بنیادی ڈھانچہ کی بنیاد فراہم کریں گے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں افغانستان کے ساتھ کئی دوطرفہ منصوبے قائم کر رہا ہے۔

تقریباً 2500 افغان طالب علم وزیراعظم کی اسکالر شپ اسکیم کے تحت پاکستانی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نیشنل اسلامک فرنٹ آف افغانستان کے نائب رہنما سید حامد گیلانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے پاس غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے مل کر کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے تمام ہمسایہ ممالک کو انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان اور افغانستان کی معاونت کرنے کی دعوت دی۔

چین کی سن ہوا یونیورسٹی انٹرنیشنل سینٹر فار کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر لی چی گوانگ نے کہا کہ ”ایک پٹی، ایک شاہراہ“ کا اقدام تمام علاقائی ممالک کو قریب تر لائے گا اور یہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور جدید تاریخ میں مواصلاتی روابط کے فروغ کے حوالے سے سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان، چین اور افغانستان علاقائی تعاون، امن اور ترقی کے حوالے سے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں چہار فریقی گروپ ایک پیج پر ہیں اور اسے روس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بعد ازاں مشاہد حسین سید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو مشترق وسطیٰ کے بارے میں پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان انتہاء پسندی کے خلاف سعودی عرب سے تعاون کرے گا اور انٹیلی جنس کے تبادلے اور سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت کے بارے میں بھی مل کر کام کرے گا۔

درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں،جرأت مندانہ فیصلوں کے ذریعے 2013ء میں پاکستان کے بارے میں کی جانے والی پیشنگوئیاں غلط ثابت کر دی ہیں،مثبت پالیسیوں کی بدولت پاکستان سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش ملک بن چکا ہے،معیشت کے استحکام میں اسٹاک ایکسچینج کا کلیدی کردار ہے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی افتتاحی تقریب سے خطاب

متعلقہ عنوان :