اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جایا جائے ، مغربی روٹ بارے بلوچستان کے لوگوں کے خدشات و تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ، کسی صورت معاملے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے ،28 مئی کی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ پرمکمل عمل درآمد ہونا چاہیے

بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں مولانا عبدالواسع ، انجینئر زمرک ، سینیٹر حافظ حمد اﷲ اور دیگر کی مشترکہ پریس کانفرنس

جمعہ 8 جنوری 2016 22:57

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔08 جنوری۔2016ء ) بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں مولانا عبدالواسع ، انجینئر زمرک خان اچکزئی سمیت سینیٹر حافظ حمد اﷲ ، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے مطالبہ کیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جایا جائے ، اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ بارے بلوچستان کے لوگوں کے خدشات و تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ، ہم کسی صورت اس مسئلے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے اس پر 28 مئی کے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق عمل درآمد ہونا چاہیے ۔

کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ موجودہ حالات میں ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کے باعث معیشت بھی بری طرح تباہ حال ہے ۔

(جاری ہے)

موجودہ حالات میں نہ صرف دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں بلکہ صوبوں کو بھی مرکز سے شکایات ہیں ۔ کافی عرصے سے کوشش کی جارہی ہے کہ تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ لے کر اتفاق رائے سے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے ۔

اس بات کی ایک جھلک امن وامان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اس وقت دیکھنے کو ملی جب قومی ایکشن پلان پر تمام ملک کی لیڈر شپ ایک پیکج پر عسکری قیادت کے ساتھ آگئی ۔ انہو ں نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا جو ملک ، خطے اور حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ چین اس راہداری کے ذریعے اپنے شورش زدہ مغربی صوبو ں کو اقتصادی فائدہ پہنچانا چارہا ہے اس بارے خود وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیاتی احسن اقبال کا کہناہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان میں معاشی انقلاب کو دیکھ کر یہاں آئے یہ سب کچھ ہمارے ہی صوبے بلوچستان کی وجہ سے ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری سے متعلق بلوچستان کی لیڈر شپ اور عوام کو تحفظات ہیں جن کا اظہار پہلے اور وزیراعظم کے ژوب آمد کے موقع پر کیا گیا اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ 28 مئی کی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے عین مطابق راہداری روٹ پر کام شروع کیا جائے ۔ میاں محمد نواز شریف خود بھی ژوب میں اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح بلوچستان ہے گزشتہ روز ہم اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ کی جماعتو ں سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کے ساتھ ملاقات کی گئی جس میں ہم نے دو ٹوک الفاظ میں ان پر واضح کیا کہ مغربی روٹ کی اصل رو پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہم بھی ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ بھی صحیح موقف رکھتا ہے اگر ایسا ہے تو اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کے کونسل میں لے جایا جائے تاکہ آئینی تقاضے پورے ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اس موقف کی پشاور میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے بھی تائید کردی ہے ہم زیادہ تیکنیکی باتوں میں نہیں جائیں گے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تک صوبائی حکومت کا اس سلسلے میں کردار انتہائی شاندار رہا ہے ۔

نواب ثناء اﷲ نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے آتے ہی اس مسئلے میں نئی روح پھونک دی ہے ہمیں توقع ہے کہ وہ اپنی شاندار کردار کو ادا کرتے رہیں گے ۔ اپوزیشن ان کی پشت پر ہے اور بھر پور ساتھ دے گی ۔ انہوں نے کہا کہ نواب کو تمام جماعتوں کا بھر پور ساتھ حاصل ہے ۔ ڈھائی سال بعد اپوزیشن جماعتوں کو ہر مسئلے پر اعتماد میں لیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے اپنا کیس بھر پور انداز میں پیش کردیا ہے اور قیادت کے ساتھ مل کر اسے آگے لے جایا جائے گا ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم کسی بات پر وفاق سے اتفاق کرتے ہیں تو سودا کرنے اور اتفاق نہ کرے تو غدار کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ احسن اقبال کا روش اب بھی ویسا ہی ہے یہ ایک پارٹی کا نہیں بلکہ قوم کا منصوبہ ہے جس میں پیپلزپارٹی بھی ہماری شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر 1970 والی صورتحال بنائی جارہی ہے ایک صوبہ کی اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت بضد ہے کہ وہ راہداری کو اپنی مرضی کے مطابق بنائیں گے ۔

ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخر اس منصوبے کو کون متنازعہ بنا رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ خورشید شاہ بارہاں کہہ چکے ہیں کہ وہ درجن بار چائنیز حکام سے ملے اور ہر بار مغربی روٹ ہی طے ہوا ۔ سیندک ، ریکوڈک ، گوادر اور سینکڑوں کلو میٹر طویل ساحل ہمار ے پاس ہیں مگر ہم سے پوچھے بغیر کام ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے منصوبے کو صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کی بات کی تو اس سے انکار کیا گیا حالت یہ ہے کہ اب تک گوادر میں لوگو ں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی احسن اقبال کے بیان سے تاثر مل رہا ہے کہ ہم لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو بلوچستان کی محرومی کو ختم کرے گا مگر اس میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ راہداری کارخ ترقیاتی یافتہ علاقوں کی طرف موڑنا صحیح اقدام نہیں جب بھی ہم ، ہمارے قائدین اور منتخب نمائندے اس سلسلے میں لب کشائی کرتے ہیں تو ان کے خلاف نیب سے بیانات جاری کروائے جاتے ہیں ہمیں یقین نہیں کہ کل سابق سینئر صوبائی وزیر اور بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع اور زمرک خان اچکزئی ہمارے ساتھ ہوں گے یا نہیں ۔

اگر ان کے خلاف کیسز بنے اور کاروائی ہوئی تو ہم سمجھیں گے کہ انہیں کاریڈور پر آواز بلند کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیصد بھی احسن اقبال کے بریفنگ سے مطمئن تھے ، ہیں اور نہ ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی بلوچستان میں بغاوت کی بنیاد رکھی جاچکی ہے مزید دیوار سے لگایا گیا تو حالات اور بھی خراب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف احسن اقبال 1971 کے حالات پر ندامت کااظہارکرتے ہیں لیکن دوسری برابر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ احسن اقبال سے ملاقات کرنی چاہیے تھی مگر اس میں بھی ہمیں حکومتی پارٹیوں کی طرف سے لگ رہا ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا بلکہ الگ الگ ملاقاتیں کرائی گئیں جب ہم احسن اقبال سے ملنے گئے تو تھکاوٹ اور دیگر بہانے شروع ہوگئے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ایم ون سے ٹن تک معاملات پہنچے ہیں جبکہ بلوچستان کے لوگ ایم لفظ سے واقف ہی نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کوکالا باغ ڈیم نہیں بنانا چاہتے خدا را مرکز اور دیگر بھی اسے متنازعہ نہ بنائیں ۔ ایسے منصوبوں کو غیر ، پسماندہ اور در بدر لوگوں کیلئے ہونا چاہیے ۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سالہ حکومت کے دوران ہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تاہم موجودہ حکومت نے انہیں بلا کر اچھا آغاز کیا ہے وہ موجودہ دور حکومت میں پہلی دفعہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس گئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پنجاب کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑے بھائی کی حیثیت سے پنجاب کو دوسرے صوبوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ہمیں مشرقی روٹ پر بھی اعتراض نہیں مگر پہل مغربی روٹ سے ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ احسن ابدال ، ملتان اورسکھر سمیت مختلف علاقوں میں اربوں روپے کے کام جاری ہیں جبکہ یہاں لائن ایکوزیشن و دیگر تک تیار نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایسٹرن روٹ میں کوئی بلوچ پشتون علاقہ تک سرے سے شامل ہی نہیں ۔ سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہاکہ پاکستان چار اکائیوں پر مشتمل فیڈریشن ہے ویسے تو ہم چین کے ساتھ دوستی کو کوہ ہمالیہ سے اونچی ، شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری دوستی قرار دیتے ہیں مگر بتایا جائے کہ ہم نے اس بے مثال دوست سے آخر سیکھا کیاہے اس نے اپنے شورش زدہ علاقوں میں بندوق کی بجائے اقتصادی ترقی کے ذریعے حالات ٹھیک کئے جبکہ یہاں 5 آپریشن ہوئے ۔

پاکستان کو چین کی پیروی کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار حاصل ہے مگر سب جانتے ہیں کہ ریکوڈک کا سودا کس نے کیا ۔ سوئی گیس سے کہاں کارخانے چل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں اقتصادی راہداری پر کمیٹیاں بنی مگر اس کے چیئرمین جو ( ق ) لیگ سے ہیں ن لیگ کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ہم اٹھارویں ترمیم کے تحت حق مانگ رہے ہیں ان کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 153 کے شق 3 کے تحت مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جایا جانا چاہیے جسے وزیراعلیٰ توجہ دلاؤ نوٹس اور وزیراعظم کے نام نہاد مشیر کرسکتے تھے مگر اس پر خاموشی اختیارکی گئی اگر سی سی آئی میٹنگ میں اس مسئلے کو لے جایا جاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتی ، اپوزیشن اور حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو تحفظات ہیں جسے دور ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ژوب میں اقتصادی راہداری کی افتتاح کے ذریعے وزیراعظم اور دیگر نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا بلکہ اس دھوکے میں این ایچ اے کا بڑا کردار تھا ادارے بھی اس طرح کرتے ہیں جو قابل افسوس ہے ۔