تاجروصنعتکار برادری ریفنڈ کلیمز کے زیرالتوا حقیقی کیسز سے متعلق مسائل سے ٹیکس محتسب کو آگاہ کریں،سلمان فاروقی

وفاقی محتسب ادارے کو سالانہ16ہزار شکایات موصول ہوتی ہیں اور ہر شکایت 60دن میں نمٹنا دی جاتی ہے۔کراچی چیمبرکے دورے کے موقع پر خطاب

جمعرات 7 جنوری 2016 22:44

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 جنوری۔2016ء) وفاقی محتسب ایم سلمان فاروقی نے کراچی کی تاجروصنعتکار برادری سے کہا ہے کہ وہ ریفنڈ کلیمز کے زیرالتوا حقیقی کیسز سے متعلق مسائل سے ٹیکس محتسب کو آگاہ کریں جنہیں 60 دن میں ایسی شکایات پر فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ٹیکس محتسب کوسپریم کورٹ کے معززجج کے برابر اختیارات حاصل ہونے اور بعض معاملات کو نمٹنانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کابھی اختیار حاصل ہے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔ اس موقع پرٹیکس محتسب عبدالرؤف چوہدری، بینکنگ محتسب انیس الحسنین، چیئرمین بزنس مین گروپ اور سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی،وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی طاہر خالق،کراچی چیمبر کے صدر یونس محمد بشیر، سینئر نائب صدر ضیاء احمد خان، نائب صدرمحمد نعیم شریف،سابق صدور کے سی سی آئی اے کیو خلیل،مجید عزیز اور میجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

سلمان فاروقی نے ادارے کی مجموعی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ وفاقی محتسب ادارے کو سالانہ16ہزار شکایات موصول ہوتی ہیں اور ہر شکایت 60دن میں نمٹنا دی جاتی ہے۔گزشتہ ڈھائی سال کے عرصے میں مجموعی طور پر 2لاکھ 7ہزار شکایتوں پر فیصلے سنائے گئے اور اب کوئی شکایت باقی نہیں۔انہوں نے کہاکہ 2015 کے آخری3ماہ کے دوران تمام شکایات کو45دنوں میں نمٹا دیا گیا جو وفاقی محتسب ادارے کی کارکردگی میں بہتری کو ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے تاجر وصنعتکاربرادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جلد ہی تجرباتی بنیاد پر ایک مہم شروع کی جائے گی جس کے تحت ملک بھر کے 500کے قریب اضلاع اور تحصیلوں میں ایف او کی ٹیمیں بھیجی جائیں گی تاکہ کیسز کا فیصلہ صرف15دن میں کیا جاسکے۔یہ ایک منفرد اقدام ہو گا جو دنیا کے کسی محتسب ادارے نے اس سے پہلے نہیں اٹھایا۔انہوں نے کہاکہ وفاقی محتسب کو ازخود نوٹس لینے کا مکمل اختیار حاصل ہے اور انہوں نے بطور وفاقی محتسب اپنی مدت میں سیکڑوں ازخود نوٹسز بھی لیے۔

وفاقی محتسب ادارہ غریب آدمی کی عدالت ہے جہاں انصاف کے لیے کوئی پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اس موقع پر بزنس مین گروپ کے چیئرمین اور سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی نے سلمان فاروقی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے بطور بیوروکریٹ ، سیکریٹری مواصلات، سیکریٹری تجارت اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر اپنی تعیناتی کے دوران پوری قوم کی خدمت کی۔

انہوں نے کہاکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کراچی کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اورتاحال اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجاتا ہے نیز تمام ٹیکسز اور قوانین بھی شہرِ کراچی پر ہی لاگو کیے جاتے ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر قوانین ایف بی آر نے نافذ کیے ہیں جو کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کے لیے ہیں اور حال ہی میں ’’ایمنسٹی اسکیم‘‘ بھی کراچی کے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے3سال کے لیے متعارف کروائی گئی ہے جس کے بعد وہ پھر ٹیکس نیٹ سے باہر ہوجائیں گے۔

انہوں نے شہرِ کراچی کے 68فیصد سے زائد ریونیو کے حصہ دار ہونے پر تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کوئی کچھ بھی کہے شہرِکراچی کا ریونیو آج بھی60فیصد سے زائد ہے۔انہوں نے وفاقی محتسب سے درخواست کی کہ وہ ایف بی آر کو شہر کی سطح پر حاصل ہونے والے ریونیو کی تفصیلات یکجا کرنے کے احکات جاری کریں اور بندرگاہوں سے حاصل ہونے والے ریونیو کی تفصیلات بھی طلب کی جائیں اور یہ بھی دریافت کیا جائے کہ کراچی کی بندرگاہوں سے ملک بھرمیں جانے والے سامان سے کتنا ریونیو جمع کیا جارہاہے۔

اگراس قسم کے ریونیو کو بھی کراچی سے حاصل ہونے والے ریونیوسے الگ کردیا جائے تب بھی یہ 60فیصد کے لگ بھگ ہی ہو گا۔انہوں نے کہاکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام ریونیو کراچی پر خرچ کردو لیکن کم از کم اس کا جائز حق تو دو اوراس حقیقت کو تسلیم کیاجائے کہ کراچی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور قومی خزانے میں ریونیو کے لحاظ سے سب سے زیادہ حصے دار ہے۔

اگر پاکستان کو درست سمت میں لے کرچلنا ہے تو ہر ایک کو سچ کو ماننا پڑے گا اور سچ بھی بولنا ہو گا۔انہوں نے ایف بی آر کی متعصب پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر کو تالا لگا کر پاکستان کے ریونیو میں با آسانی اضافہ کیاجاسکتا ہے اس کے نتیجے میں تاجروصنعتکار برادری رضاکارانہ طور پر ازخود ٹیکس جمع کروائیں گے جس سے ایف بی آر کے جمع کیے گئے ریونیو کے مقابلے میں یقینی طور پر ملک کا ریونیو دگناہو جائے گا۔

ایف بی آر حکام کو ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے میں مزہ آتا ہے جبکہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر نے8سال پہلے 30لاکھ ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کا اعتراف کیا تھا جو بڑے گھروں میں رہتے ہیں،لگژری گاڑیاں و کریڈٹ کارڈز استعمال کرتے ہیں، باقاعدگی سے غیر ملکی سفر کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی بیرون ملک زیر تعلیم ہیں لیکن ایف بی آر نے اُن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تاحال کوئی اقدام نہیں کئے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی البتہ ایف بی آر نے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو ہراساں کرنے کی روش نہیں بدلی۔

انہوں نے کہاکہ 80فیصد ٹیکس نادہندگان یا تو بااثر ہیں یا پھر سیاستدانوں اور بیوکریٹس کے ساتھی ہیں۔انہوں نے وفاقی محتسب سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ایف بی آر کو ٹیکس نادہندگان کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کی ہدایت کی جائے۔ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایس ایم منیر نے ملکی برآمدات میں کمی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجہ عالمی کساد بازاری کو قرار دیا۔

انہوں نے کہاکہ طویل عرصے سے اربوں روپے کے ریفنڈ کلیمز زیر التوا ہیں اگر یہ ریفنڈ کلیمز ادا کردیے جائیں تو رواں سال کے اختتام تک ملکی برآمدات میں کم ازکم 4سے5ارب ڈالر کا اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے وفاقی محتسب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امر پرزور دیا کہ وفاقی محتسب کے ادارے کے بارے میں آگاہی بیدار کی جائے کیونکہ عوام کی اکثریت اور تاجروصنعتکاربرادری بھی وفاقی محتسب کے ادارے کے کردار سے واقف نہیں اور نہ ہی انہیں مختلف اداروں کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کے حوالے سے وفاقی محتسب کے ادارے کے کردار کا علم ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی محتسب ادارے کو نچلی سطح خاص طور پرضلعی سطح تک رسائی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک عام آدمی آسانی سے ادارے کے کردار کو سمجھ سکے اور سہولت اور فوائد سے مستفید ہوسکے۔اس حوالے سے وفاقی محتسب کا ادارہ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کرسکتا ہے کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر اپنی شکایات کو اجاگر کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :