پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جاپان اور انڈونیشیا میں سفارت خانوں کیلئے عمارتوں کی خریدو فروخت میں بے قاعدگیاں ، قومی خزانے کو اربوں کے نقصان کا انکشاف

مانتے ہیں کہ بے ضابطگی ہوئی، تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کر دیئے ہیں ، سیکرٹری خارجہ

بدھ 6 جنوری 2016 21:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔06 جنوری۔2016ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جاپان اور انڈونیشیا میں سفارت خانوں کی خریدو فروخت میں بے قاعدگیاں ، قومی خزانے کو اربوں کے نقصان کا انکشاف،2012میں کیس نیب کو بھیجا گیا مگر وہ کوئی کارروائی نہیں کر سکا،پی اے سی نے نیب کی نا اہلی پر برہمی کا اظہار کر دیا، (کل ) جمعرات کو ڈی جی نیب کو طلب کرلیا، چار سال گزر گئے نیب نے کارروائی کیوں نہیں کی، نیب حکام جواب دینے سے قاصر رہے، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ وزارت مانتی ہے کہ بے ضابطگی ہوئی تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کر دیئے ہیں، کمیٹی ممبر میاں عبدالمنان نے کہا کہ انڈونیشیا میں تعینات اس وقت کے سفیر نے 2010 میں پی اے سی کے سامنے اقرار کیا کہ اس نے پیسے کھٹے ہیں آپ جو کر سکتے ہیں کریں، مگر کارروائی نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

بدھ کو پبلک اکاؤٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے وزارت خارجہ کے سال 2010-11کے آڈٹ اعتراضات پیش کئے، آڈٹ اعتراضات سے قبل جاپان اور انڈونیشیاء میں پاکستانی سفارتخانوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے نیب اور وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ بریفنگ کے دوران نیب کی جانب سے کمیٹی کو تسلی بخش جواب نہ دیئے جانے اور ان کیسوں کی کارروائی میں نا اہلی پر برہمی کا اظہار کیا، اور آج پی اے سی کے ہونے والے اجلاس میں ڈی جی نیب کو طلب کرلیا۔

چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ گریڈ20سے اوپر کے آفیسر بھیجے، سفارتخانوں کے حوالے سے وزارت نے بتایا کہ ٹوکیو میں سفارتخانے کی عمارت فروخت کی گئی جس کے عوض دوسری جگہ سفارتخانہ ،سفیر کا گھر اور 24اپارٹمنٹس تعمیر کئے گئے اور اس میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی جبکہ آڈٹ حکام نے اعتراض اٹھایا کہ سفارتخانے کی فروخت خلاف قاعدہ ہوئی تھی۔

سابق سفیر کامران امتیاز نے زمین فروخت کی اور عائشہ اسٹیل ملز میں سرمایہ کاری کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے ڈائریکٹر بن گئے، کچھ رقم سے اسٹیل مل میں سرمایہ کاری کی، مل کے مالک حسیب الرحمان کی مل کھولنے میں مدد کی۔ سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ 52.66ملین ڈالر میں سفارتخانہ فروخت کیا گیا اور نیا سفارتخانہ 70.89ملین ڈالرز میں تعمیر ہوا، جس میں زمین کی مالیت 31ملین ڈالر تھی، کمیٹی ممبر عارف علوی نے کہا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال اور ایک ہی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا، اگر اوپن ٹینڈر کیا جاتا تو ٹھیک تھا، انڈونیشیا میں پاکستانی سفارتخانہ کی عمارت کو فروخت کر کے کرائے کی عمارت میں سفارتخانہ بنایا گیا اور ماہانہ 48ہزار ڈالر کرایہ دیا گیا۔

سابق سفیر نے 2010میں پی اے سی کے سامنے اعتراف کیا اور کہا کہ ج کرنا ہے کریں، میاں عبدالمنان نے کہا کہ کارروائی نہیں ہوئی

متعلقہ عنوان :