پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے سالانہ سکیورٹی رپورٹ جاری کر دی

منگل 5 جنوری 2016 16:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔05 جنوری۔2016ء)پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے سالانہ سکیورٹی رپورٹ جاری کر دی۔رپورٹ کے مطابق سال 2015 کے دوران پاکستان بھر میں 625 دہشت گرد حملے ہوئے جو کہ 2014ء کے مقابلے میں 48 فیصد کم ہیں دہشت گردوں کے حملوں میں 1069افراد جاں بحق ہوئے ‘ جو حملے رپورٹ ہوئے ان میں سے 359 حملے پاکستانی طالبان کی جانب سے کئے گئے جبکہ 212 حملے باقی کالعدم گروہوں کی جانب سے کئے گئے‘ اسی عرصہ میں بلوچ باغیوں کی جانب سے 208 دہشت گرد حملے کئے گئے‘ 58واقعات کی نوعیت فرقہ وارانہ تھی۔

رپورٹ کے مطابق سال 2015 کے اختتام پر مردان میں ہونے والا خودکش حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خطرہ ابھی موجود ہے۔ اگرچہ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف فوجی ایکشن کسی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے لیکن انہوں نے سرحد پار اپنے اڈے قائم کرلئے ہیں جہاں سے انہوں نے ملک کے اندر حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق کراچی آپریشن سے شہر کے اندر ہونے والے تشدد میں کمی آئی ہے مگر جیکب آباد‘ کشمور‘ شکار پور اور سکھر کے اضلاع میں ہونے والے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں نے اندرون سندھ بھی اپنا نیٹ ورک بنا لیا ہے حتیٰ کہ پنجاب میں بھی جہاں پر 2015 میں حملوں میں کمی دیکھی گئی مگر اس کو عسکریت پسندوں سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا جس کی مثال کچھ ہائی پروفائیل حملے ہیں جن میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت بھی شامل ہے۔

بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں اگرچہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی ہوئی ہے تاہم 2015ء کے دوران پاکستان کے تمام علاقوں میں یہ پھر بھی سرفہرست رہا۔ دہشت گرد حملوں میں سب سے زیادہ کمی جہاں دیکھی گئی وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے جہاں 79 فیصد کمی ہوئی اس کے بعد خیبرپختونخواہ ہے جہاں یہ کمی 61 فیصد ہے‘ کراچی میں بھی 61 فیصد‘ اندرون سندھ 45 فیصد‘ پنجاب 41 فیصد‘ فاٹا 36 فیصد اور بلوچستان میں 36 فیصد کمی ہوئی۔

اموات کے لحاظ سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ فاٹا رہا جہاں 268 افراد مارے گئے اس کے بعد بلوچستان میں 257‘ سندھ میں 251‘ خیبر پختونخوا میں 206‘ پنجاب میں 83 اور اسلام آباد میں 4ہلاکتیں ہوئیں اس کے باوجود کہ فرقہ وارانہ حملوں میں 59 فیصد کمی ہوئی مگر ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں 2015 کے دوران 7فیصد اضافہ ہوا جو 2014 میں 255 تھیں مگر 2015 میں بڑھ کر 272 ہوگئیں کیونکہ اندرون سندھ اور کراچی میں ہلاکت خیز فرقہ وارانہ بم دھماکے ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق دہشت گرد نیشنل ایکشن پلان کے ردعمل کے طور پر حملے کر سکتے ہیں جن میں پنجاب‘ کراچی اور وفاقی دارالحکومت کے شہری علاقے بڑھتے ہوئے خطرے کی زد میں ہیں ان علاقوں میں بالخصوص سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں۔