خطے میں قیام امن کے سارے راستے کشمیرسے ہو کر گزرتے ہیں، ساجد میر

بھارت کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مذاکرات کرے تو تعلقات میں بہتری آسکتی ہے نواز مودی ملاقات کی حیثیت زیادہ تر سماجی اور ذاتی نوعیت کی ہے،کابینہ کے مشاورتی اجلاس سے خطاب

اتوار 27 دسمبر 2015 17:14

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 دسمبر۔2015ء) امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ خطے میں قیام امن کے سارے راستے کشمیرسے ہو کر گزرتے ہیں۔بھارت کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مذاکرات کرے تو تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ نوازمودی کی ملاقات اور خیر سگالی کے جذبات کی حیثیت زیادہ تر سماجی اور ذاتی نوعیت کی ہے۔

اتوار کے روز مرکز106 راوی روڈ میں کابینہ کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا پاک بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج کی گہرائی کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نریندر مودی کی پاکستان اور مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

(جاری ہے)

وہ بھارت کوہندو ریاست میں تبدیل کر چکے ہیں جسکا عملی مظاہرہ انہوں نے ابھی چند دن پہلے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کی کا اعلان کرکے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی ممالک برابری کی بنیاد پر اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ امن کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو اس خطے کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ امن کی یہ راہ درحقیقت خوشحالی اور اقتصادی استحکام کی راہ ہو گی جس کی اس وقت دونوں ممالک کے عوام کو سخت ضرورت ہے جبکہ اس سے پاکستان بھارت کشیدگی کے حوالے سے اقوام عالم میں پیدا ہونے والا اضطراب بھی ختم ہو جائے گا جو ان دونوں ممالک کی کشیدگی کے عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشہ کے باعث پیدا ہوا ہے۔

تاہم پاکستان کے ساتھ اب تک کے بھارتی رویے‘ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی کے تسلسل‘ انتہا پسندانہ ہندو سوچ اور جنگی جنون بڑھانے کی مودی سرکار کی پالیسی کو پیش نظر رکھ کر ہمیں پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعلقات کی بحالی کے لئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت پر انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔اگر کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندانہ سوچ کو برقرار رکھ کر مودی کی جانب سے پاکستان کے لئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو بادی النظر میں مودی سرکار کی یہ پالیسی ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ والی ہی ہے۔

اسی لیے مودی کی ”اچانک“ لاہور اور جاتی امرآمد کو عالمی برادری کو بے وقوف بنانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ عالمی قیادتوں کو مودی سرکار کی پالیسیوں سے علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق نظر آرہے ہیں جس کے پیش نظر اقوام متحدہ اور امریکہ و یورپ کی جانب سے مودی سرکار پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دو طرفہ مسائل حل کرنے کے لئے دباو بڑھایا جا رہا ہے۔تاہم پاک بھارت تعلقات ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس میں کسی خوش فہمی کی بنیاد پرہمارے اصولی موقف پر کسی کمزوری کا عنصرنہیں آنا چاہئے۔