پی اے سی کی ذیلی کمیٹی میں لاکھڑا پاور پلانٹ کے ایک یونٹ کے بند ہونے سے قومی خزانے کو اربوں کے نقصان کا انکشاف

1993-95 میں تعمیر ہونے والا بجلی گھر ناقص حالت میں ہے، اب کام نہیں کررہا‘ لاکھڑا پاور پلانٹ کے مزید دو یونٹ بند کردیئے گئے،تینوں یونٹس کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چلائے گئے‘ ان پلانٹس کا ڈیزائن صحیح نہیں بنایا گیا،سیکرٹری پانی و بجلی حکومت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا رہی ہے،دیگر ممالک میں اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، وہ اس کو بند کرنے پر غور کررہے ہیں،کمیٹی ممبر شفقت محمود

منگل 1 دسمبر 2015 16:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم دسمبر۔2015ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کوئلے سے چلنے والے لاکھڑا پاور پلانٹ کے ایک یونٹ کے بند ہونے سے قومی خزانے کو اربوں کے نقصان کا انکشاف ہوا‘ 1993-95 میں تعمیر ہونے والا بجلی گھر ناقص حالت میں ہے اب بھی کام نہیں کررہا‘ لاکھڑا پاور پلانٹ کے مزید دو یونٹ بھی بند کردیئے گئے ہیں‘ سیکرٹری پانی و بجلی محمد یونس ڈاگا نے بتایا تینوں یونٹس کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چلائے گئے‘ ان پلانٹس کا ڈیزائن بھی صحیح نہیں بنایا گیا‘ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس پر کمیٹی بنائی گئی ہے مگر ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی‘ پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے ایک ماہ میں اس پر رپورٹ طلب کرلی‘ کمیٹی ممبر شفقت محمود نے کہا کہ حکومت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا رہی ہے اور دیگر ممالک میں اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ اس کو بند کرنے پر غور کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی شاہدہ اختر علی کی صدارت میں ہوا اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل ‘ وزارت پانی و بجلی‘ وزارت دفاعی پیداوار ‘ وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کے مالی سال 1998-99 کے آڈٹ اعتراضات پیش کئے جبکہ وزارت دفاع کے آڈٹ اعتراضات ان کیمرہ پیش کئے گئے وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے آڈٹ اعتراضات میں نجی کمپنی کو حد سے زیادہ مہربانی کرکے تیس لاکھ سے زائد رقم کی چھوٹ دی گئی جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوا ۔

وزارت دفاعی پیداوار کے آڈٹ اعتراضات میں کروڑوں روپے کے واجبات کی عدم وصولی پر کمیٹی نے تمام واجبات کی وصولی کیلئے دو ہفتے کا وقت دیدیا۔ سیکرٹری دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل (ر) اویس نے کمیٹی سے ایک ماہ کا وقت مانگا تو کمیٹی نے موقف اختیار کیا کہ پی اے سی کی سالانہ رپورٹ اس مہینے کے آخر سے تیار ہونی شروع ہوگی لہذا دو ہفتوں کا وقت ہی دیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :