بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں کی پھانسیوں کیخلاف جماعت اسلامی کا مظاہرہ، حسینہ اور نواز حکومت میں کوئی فرق نہیں : سراج الحق

پیر 30 نومبر 2015 20:56

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔30 نومبر۔2015ء ) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہاہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اور ہمارے حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں ،حسینہ واجد پاکستان کے وفاداروں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے تو ہمارے بے حس حکمران اس ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، جن نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی جانیں پاکستان پر نچھاور کیں ، ان کے لیے عالمی ادارہ انصاف میں آواز نہ اٹھانا حکمرانوں کی بے حسی اور نظریہ پاکستان سے روگردانی کا واضح ثبوت ہے ۔

لبر ل پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے بنگلہ دیش اور کشمیر کے شہدا کے خاندانوں کے زخمو ں پر نمک پاشی کی ۔وہ مسجد شہداء کے سامنے بنگلہ دیشی حکومت کے مظالم کے خلاف دیے گئے احتجاجی دھرنا کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے اس موقع پر امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد ، ڈاکٹر فرید احمدپراچہ ، حافظ سلمان بٹ ، امیر جماعت اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اﷲ مجاہد اور مولانا جاوید قصوری نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ بنگلہ دیش میں پھانسی پانے والوں کی لڑائی اقتدار کی کرسی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان جسے وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے ، کی بقا اور سلامتی کے لیے تھی ، انہوں نے نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان مدینہ کی ریاست کے بعد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے جس کی حفاظت اور خدمت کو ہم مقدس ترین جہاد سمجھتے ہیں اور جن لوگوں نے اس کی خاطر اپنے سر پیش کیے ، وہ ہماری نظرمیں عظیم مجاہد ہیں ۔

سراج الحق نے کہاکہ حکومت پاکستان نے بنگلہ دیش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور پھانسیاں پانے والوں کے ساتھ لاتعلقی اور بیگانگی کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو قوم کی نظروں میں مجرم ثابت کر دیاہے ۔ اگر پروفیسر غلام اعظم کی وفات اور دیگر قائدین کی پکڑ دھکڑ کے موقع پر حکومت عالمی ادارہ انصاف سے رجوع کرتی تو شاید کچھ لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور ہمیں بھی تسلی ہوتی کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان سے وفا کرنے والوں کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور تماشا دیکھتے رہے جس کی وجہ سے اب تک 45 لوگوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور چار ہزار سے زیادہ لوگ قید میں ہیں ۔ سراج الحق نے کہاکہ مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر بیان دیا کہ وہ مکتی باہنی کے تخریب کاروں میں شریک ہو کر پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے دہلی سے ڈھاکہ پہنچے تھے ۔ کیا ہمارے حکمران 1974 ء کو پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر مودی اور حسینہ واجد کے خلاف عالمی ادارہ انصاف میں نہیں جاسکتے تھے ؟۔

انہوں نے صدر ممنون حسین کی طرف سے علما کو سود کی گنجائش نکالنے کے مطالبہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ انہیں ایک سنجیدہ اور عمر رسیدہ شخص سے اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبے کی توقع نہیں تھی ۔ انہوں نے کہاکہ کل کو کوئی دوسرا حکمران شراب نوشی اور بدکاری کی اجازت مانگ لے گا ، کیا ان لوگوں کو اﷲ کے سامنے جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد نے کہاکہ ہماری دعاہے کہ نوازشریف اور راحیل شریف بھی بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کے خلاف لب کھولیں ۔

حسینہ واجد بھارت کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کی جنگ لڑنی چاہیے اور بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں کو ناکام بناناچاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ حسینہ واجد بھارتی ایما پر کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ آج اگر وہ ہمارے بزرگوں کو پاکستان کی محبت کے جرم میں پھانسیاں دے رہی ہے تو کل کو پاکستانی جرنیلوں کو بھی طلب کر سکتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1971 ء میں پاکستانی فوج اور عوام پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کر رہے تھے ۔

اگر یہ جرم ہے تو اس وقت کے صدر اور وزیراعظم بھی مجرم تھے اور کل کلاں ان کے خلاف بھی عالمی سطح پر ایکشن کا مطالبہ سامنے آسکتاہے جس کے الزام میں قید و بند موت کا کھیل کھیلا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف نے لبرل پاکستان کی بات کر کے ہمیں اپنے بزرگوں کی شہادتوں سے بڑا زخم لگایا ہے ۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ 1971 ء میں بھارت نے پاکستان کو توڑنے اور سبق سکھانے کا جو ایجنڈا دیا تھا ، حسینہ واجد اس کو پورا کررہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہم البدر اور الشمس کے ان دس ہزار شہداء اور پاکستان کی محبت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکائے جانے والے بزرگوں کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ احتجاجی دھرنے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔ خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد بھی دھرنے میں شریک تھی ۔