موجودہ حکومت نے ڈھائی سال کے عرصہ میں 9 ارب 75کروڑڈالر کا غیر ملکی قرض لیا؛ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا فضل

جمعہ 27 نومبر 2015 15:03

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 نومبر۔2015ء) پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا فضل قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران نے ایوان کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے ڈھائی سال کے عرصہ میں9 ارب 75کروڑڈالر غیر ملکی قرض لیا ہے اس میں آئی ایم ایف سے 4769 ملین ڈالر کا قرضہ شامل نہیں ہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا مقصد حکومت کے غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخائر میں اضافہ کرنا ہے اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 19 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں حکومت رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں 40 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکی اس خسارہ کو پورا کرنے کے لئے حکومت مختلف شعبوں میں ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی ساجدہ بیگم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور حکومت (5 جون 2013ء تا 30 ستمبر 2015ء) میں پاکستان کو ملنے والے غیر ملکی قرضوں کی مالیت 9750.87 ملین ڈالر ہے جس میں 3499 ملین ڈالر اور آئی ایم ایف سے لئے گئے 4769 ملین ڈالر کا قرضہ شامل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے لیا جانے والا قرضہ کا مقصد حکومت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے۔ حکومت یہ قرض اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے استعمال نہیں کر سکتی اور نہ ہی حکومت نے ایسا کہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت 19 ارب ڈالر کے لگ بھگ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ایم کیو ایم کے رکن قومیا سمبلی عبدالرشید گوڈیل کی جانب سے پارلیمانی سیکرٹری خزانہ سے استفسار کیا گیا کہ حکومت نے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کتنی شرح سود پر فلوٹ کئے ہیں اور حکومت 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کیوں لگا رہی ہے اس پر جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری خزانہ محمد افضل نے کہا کہ حکومت نے 500 ارب روپے کے بانڈز 8 فیصد کی شرح سود پر لئے ہیں اس کو 10 سال کے عرضہ میں واپس کرنا ہو گا لمبے عرصہ تک لئے جانے والے بانڈز کی شرح سود ریٹ زیادہ ہوتا ہے یہ اس لئے لیئے جاتے ہیں تاکہ مستقبل میں آنے والی کسی ناگہانی صورتحال کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پہلی سہہ ماہی میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 640 ارب روپے رکھا گیا لیکن ٹیکس جمع کرنے کے ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکا

اس وقت 40 ارب روپے شاٹ فال کا سامنا ہے جسے انہوں نے مزید کہا کہ اگر ٹیکس کا ہدف مکمل نہ ہو سکے تو صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت کم پیسے ملتے ہیں اس لئے حکومت نے سو فٹ ایریا میں ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے ہم ان سیکٹرز پر ٹیکس لگاتے گئے تاکہ غریب آدمی کو کچھ نہ ہو۔

پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کے ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی فروخت کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی یہ چوتھی بار نجکاری کی کوشش کی گئی ہے اس سے قبل 2006ء ‘ 2011ء‘ 2013ء میں بھی کوشش کی گئی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔۰ انہوں نے کہا کہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی خریداری کے لئے ایم ایس کارگل ہولڈنگز لمیٹڈ سی ایچ ایل کی بولی دہندہ تھی جس کی منظوری نجکاری کمیشن بورڈ اور سی سی او پی نے دی تھی چونکہ ایم ایس سی ایچ ایل 225 ملین روپے کی بقایا ادائیگی کرنے میں ناکام رہی اس لئے حکومت نے چار اپریل دو ہزار پندرہ کو کہا گیا معاہدہ منسوخ کردیا گیا ہے اس پر پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی چار ماہ پہلے رجسٹرڈ ہوئی تھیں یہ گڈ گورننس کی بات کرتے ہیں یہ ڈمی کمپنی تھی کیونکہ مذکورہ کمیٹی پچیس کروڑ روپے کے بقایات ادا کرنے میں ناکام ہوئی اس کی انکوائری ہونی چاہیے اس پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ڈمی کمپنی بھی اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کررہی ہے حکومت قومی خزانہ کو بیچنے میں بہت غور وحوض کرتی ہے اس کے بعد بیچا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنا نفیسہ شاہ کے وزیراعظم یوتھ لون اسکیم میں پنجاب کے چار ارب سندھ کے لئے چالیس کروڑ خیبر پختونخوا کے لئے ساٹھ کروڑ اور بلوچستان کے لئے دس کروڑ رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب ہی سارا پاکستان ہے اس پر پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ یہ سکیم پورے ملک کی عوام کے لئے ہے حکومت نے ایک پالیسی بناتی ہے اس پر پورا اترنے والے یہ لون حاصل کرسکتے ہیں پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ سلطانی نے پوچھا کہ سال دو ہزار پندرہ سولہ کے دوران افغانستان سے پاکستان کو اسمگلنگ سے کتنا نقصان ہوا ہے اس پر جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ طویل سرحد اور افغانستان سے اسمگلنگ سے متعلق کا بل تصدیق معلومات کے فقدان کے باعث نقصانات کا تعین کرنا مشکل ہے البتہ انہوں نے کہا کہ ہر سال دو ہزار بارہ تیرہ میں پانچ ارب ڈالر کا مال ضبط کیا گیا اس طرح دو ہزار تیرہ چودہ میں ساڑھے سات ارب ڈالر اور دو ہزار چودہ پندرہ میں چوبیس ارب ڈالر کا غیر قانونی مال قبضہ میں لیا گیا ہے