سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے سی ڈی اے کو وزارت کیڈ کی نگرانی میں دینے کا نوٹس لے لیا

سی ڈی اے کے افسران کی سرپرستی میں کچی آبادیوں اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیا م سے اسلام آباد میں کئی مسائل نے جنم لیا،کثیر المنزلہ عمارتوں نے شہر کا حسن تباہ کر کے رکھ دیا، ملوث افسران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے، طلحہ محمود

جمعرات 26 نومبر 2015 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 نومبر۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے سی ڈی اے کو وزارت کیڈ کی نگرانی میں دینے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ سی ڈی اے کی بار بار وزارتوں اورڈویژنوں میں تبدیلی سے کارکردگی متاثرہوئی ہے۔ اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس روش کو ترک کر کے ایک مستقل نظام کے تحت سی ڈی اے کے معا ملات کو چلایا جائے ۔

کمیٹی کے اجلاس میں بجلی کی موٹروں کے ذریعے غیر قانونی طور پر پانی کے استعمال کو روکنے ،برتھ سرٹیفیکیٹ بغیر تصدیق نہ جاری کرنے کی بھی ہدایت دے دی ۔ جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے کے افسران کی سرپرستی میں کچی آبادیوں اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بننے کے باعث وفاقی دارلحکومت میں مختلف قسم کے مسائل نے جنم لیااوران میں دن بند اضافہ دیکھنے میں آیا ۔

(جاری ہے)

جبکہ کثیر المنزلہ عمارتوں نے شہر کا حسن تباہ کر کے رکھ دیا۔انہوں نے کہا کہ ان افسران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے جواس میں ملوث تھے ۔تاہم انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کچی آبادیوں کے سلسلے میں ایف آئی اے کی جانب سے ہونے والی حالیہ تفتیشی عمل میں سی ڈی اے کے بعض دیانت دار افسران کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے جو سراسر ذیادتی کے مترادف ہے۔

ڈیپارٹمنٹل انکوائری کے بغیر لوگوں کے نام ایف آئی اے کو بھجوا دیئے گئے ۔اآج کے اس اہم اجلاس میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے معاملات پر بھی تفصیلی بحث کے علاوہ وفاقی دارلحکومت میں پانی کی قلت کے مسائل ،موٹرز کے ذریعے پانی چوری ،سڑکوں کی خستہ حالی وغیرہ کے مسائل زیر غور رہے۔سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ سی ڈی اے نے حال ہی میں ایک سروے کرایا ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ غیر قانونی موٹریں لگا کر پانی استعمال کرتے تھے۔

اور اس کی وجہ سے کافی آبادی پانی کی فراہمی سے محروم رہ جاتی تھی تاہم انہوں نے کہا کہ سروے کے اس عمل کیلئے ناقص طریقہ کار اختیار کیا گیا اور ایسے لوگوں کو بھی نوٹس بجھوائے گے جنہوں نے موٹر زنہیں لگائی تھیں۔ چیئرمین طلحہ محمود نے کہا کہ اس سلسلے میں پالیسی سازی کی ضرورت ہے ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جس کے تحت بے گناہ لوگوں کو اس پریشانی سے بچایا جا سکے۔

سی ڈی اے حکام نے آگاہ کیا کہ 15 ہزار656 کل ملازمین میں سے اکثر ڈیوٹی پر حا ضر نہیں ہوتے بائیو میٹرک سسٹم لگانے کیلئے اقدامات شروع کئے گئے ہیں ۔ اور جلد ہی یہ نظام لگا دیا جائے گا تاکہ ملازمین کی حاضری کو یقینی بنایا جاسکے انہوں نے آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں پانی کی سپلائی میں 35%کمی ہے اور مختلف منصوبے زیر غور ہیں تاکہ طلب اور رسد میں توازن پید اکیا جاسکے۔

کمیٹی نے اس پر فیصلہ کیا کہ پانی کے معاملے اور سٹریٹ لائٹس کیلئے لائحہ عمل بنانے کیلئے الگ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی گئی کہ محکمانہ انکوائری کر کے رپورٹ دی جائے کہ کون کون ملازم گرفتار کئے گئے ہیں ۔غوری ٹاؤن کے اندر ایک اور نئے بننے ولے مروہ ٹاؤن کے بارے میں بھی کہا گیا کہ اگر غیر قانونی ہے تو فورا بند کر دیا جائے،۔

برتھ سرٹیفیکیٹ کا طریقہ کار میں بہتری لائی جائے اور ضروری تصدیق کے بغیر برتھ سرٹیفیکیٹ نہ جاری کئے جائیں۔سی ڈی اے کی طرف سے زمین حاصل کرنے والے تعلیمی اداروں کے استعمال کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی۔سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن میں تعینات ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے کے حوالے سے کمیٹی نے کہا کہ ایسے ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے کیلئے پالیسی وضح کی جائے اور اس سلسلے میں مناسب طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔

سینیٹر طلحہ محمود نے اس موقع پربتایا کہ اکبر علی نامی ایک شخص نے جو کہ ملتان فورٹ عباس کا رہائشی ہے 1219کنال زمین خریدی جو فاروق نامی شخص نے غیر قانونی طور پر اپنے نام ٹرانسفر کرا لی جو اس نے بحریہ ٹاؤن کو فروخت کر دی۔کمیٹی نے ہدایت دی کہ اس معاملے کو تفصیلاً زیر غور لایا جائے گا اور اس سلسلے میں ایف آئی اے کو بھی طلب کیا جائے گا۔ اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید، بیگم نجمہ حمید، میر محمد یوسف بادینی اور سینیٹر حاجی سیف اﷲ بنگش کے علاوہ سی ڈی اے مختلف ذیلی محکموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔