پاکستان میں اہل اقتدار نے کبھی آئین پر عمل نہیں کیا،افتخار چوہدری

احتساب اشرافیہ کو گوارا نہیں اس لئے مذاق بنا دیا گیا،پولیس کو ہمدرد بنانے کی بجائے طاغوت کا روپ دیدیا گیا،سابق چیف جسٹس کا میڈیاکو خط

جمعرات 26 نومبر 2015 18:31

پاکستان میں اہل اقتدار نے کبھی آئین پر عمل نہیں کیا،افتخار چوہدری

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 نومبر۔2015ء ) سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے کہاہے کہ ، پاکستان میں آئین کتاب میں لکھے حروف کی صورت جگمگاتو رہا ہے مگر اہل اقتدار نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا،انہیں آئین کی صرف شقوں کی رغت ہے جو ان کے اقتدار کے خدوخال سنوارنے میں کام آ سکیں،ہر دور میں یہی لوگ حکومت میں رہے ہیں ،کبھی فوجی طالع آزما کا ساتھ دیکر تو کبھی جمہوریت کے سائے میں بیٹھ کر ان کے پیرہن بدلتے ہیں ان کی خو نہیں جاتی ،ان کا نعرہ بدلتا ہے ان کا طریقہ واردات ایک ہے،پاکستان میں عدل کے راہ میں قانون موشگافیاں ہیں،احتساب چونکہ مبینہ اشرافیہ کو گوارا نہیں اس لئے اسے مذاق بنا دیا گیا ہے، ،آج ایک مزدور کی ،ایک کسان کی ،ایک ڈرائیو رکی ،ایک چپڑاسی کی ،ایک کلرک کی زندگی میں خوشیوں کی کوئی رمق اس نظام نے باقی نہ چھوڑ ی ہے،قائد اعظم کے افکار اور دستور پاکستان کے اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق کبھی بروئے کار نہیں آنے دیئے وہ معاہدہ ہیں مگر انہیں ذمی ہی سمجھا گیا،پولیس کو ہمدرد اور خیر خواہ بنانے کی بجائے ایک طاغوت کا روپ دے دیا گیا ہے اور اہل اقتدار نے ہمیشہ اس طاغوت کی سرپرستی کی کیونکہ ان کا اقتداراسی جبر،ظلم اور خوف کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے،ان خیالات کااظہار انھوں نے میڈیا کولکھے گئے اپنے ایک خط میں کیاہے انھوں نے مزید کہاکہ سماج کا عالم یہ ہے کہ اس کی کسی نے تہذیب ہی نہیں ہے،وہ آج بھی ناتراشیدہ ہے،سہولیات سے محروم ہے ،گیس ،بجلی ،صاف ،پانی اور سب چیزیں ایک خواب بنتی جارہی ہیں، علاج معالجہ کی سہولت نہیں، سستا انصاف میسر نہیں،سکول ویران ہیں یا اہل ثروت کے جانوروں کا باڑہ بن چکے ہیں، قیمتی ریاستی اداروں کو بہتر کرنے کی بجائے پرائیویٹائز کیا جارہا ہے ،سٹیل مل ہو،پی آئی اے ہو ،ریلوے،ہو یا واپڈا ہر طرف ایک انحطاط ہے ،یہ انحطاط نہیں یہ انحطاط مسلسل ہے۔

(جاری ہے)

یہ تو ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ قیام پاکستان ہماری آرزؤں اور خوابوں کی ایک تعبیر تھی جس میں تابناک مستقبل کی بھی نوید تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ جیسے ہی ہمارے قائد محمد علی جناح نے آنکھیں موندلی سارے کے سارے سپنے ٹوٹ گئے اگرچہ آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی حدت ہے لیکن یہ حدت حاصل غم بھی ہے اور امید کی کرن بھی ۔دیمک لگے کواڑ بھی اتنے کم مایاں نہ ہوں گے جتنی ایک پاکستانی کی زندگی بنا دی گئی ہے ،اشرافیہ کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دریا کے کنارے بیٹھا ہو ایسے شخص کو کیا معلوم جنہیں پیاس بجھانے کے لئے ہر پہر ایک کنواں کھونا پڑے ان کی زندگی کتنی بے معنی ہو جاتی ہے،ایک عام آدمی آج وہ ایک گیلا کاغذ بن کر رہ گیا ہے جو نہ جلانے کے کام آتا ہے نہ اس پر کوئی حرف غلط رقم کیا جا سکتا ہے حیات اجتماعی پر نگاہ ڈالئے اور چشم نور سے دیکھئے آج ایک مزدور کی ،ایک کسان کی ،ایک ڈرائیو رکی ،ایک چپڑاسی کی ،ایک کلرک کی زندگی میں خوشیوں کی کوئی رمق اس نظام نے باقی نہ چھوڑ ی ہے، ملک کی غالب آبادی سسکس سسک کر اور چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر جی رہی ہے اس کے لئے بوڑھی ماں کے علاج کی سہولت نہیں،چھوٹے بچے بیمار پڑ جائیں تو ڈھنگ کا علاج دستیاب نہیں، تعلیم پر سا ہو کاروں کے پہرے ہیں، دستور پاکستان ،تعلیم و صحت ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں بنیادی شعبے پرائیوٹ ہاتھوں میں جا چکے ہیں،تعلیم ایک کاروبار اور صحت بھی ،کیا ایک فلاحی ریاست ایسی ہوتی ہے، اس گھن چکر سے بھی جو کامیاب نکل آئے اسے ایک دوسرے امتحان کا سامنا ہوتا ہے ڈگری تو ہے ملازمت نہیں، مواقع اول تو ہیں ہی کم اور جو ہیں ان پر رشوت اور سفارش کے منحوس سائے ہیں،کوئی نفسیاتی مطالعہ ہو تو معلوم پڑے انتہا پسندی کے فروغ میں یہ عوامل کس شدت سے بروئے کار آرہے ہیں۔

استحصال اپنے کمال پرہے،ایک غریب ہاری اور کسان ساری عمرل بل تو چلا سکتا ہے لیکن زمین کا مالک نہیں بن سکتا،اہل اقتدار نے کامیابی سے برسوں پہلے زرعی اصلاحات کو بے روح اور بے معنی کردیا ہوا ہے ،اقبالیات کے ماہر سے نہیں ان ہاریوں کے ناتواں وجود سے اقبلا کے شعر کی تشریح پوچھئے جب انہوں نے کہا ،جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی،اس کھیت کے ہر خوشہ ء گندم کو جلا دو،اب ان تمام احباب کو جو صاحب درد ہیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم نے اسی نظام کے ساتھ زندگی گزارنا ہے یا اس کو بہتر بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنی ہے ہم کب تک پھٹی آنکھوں سے مغربی سماج کے قصے سنیں گے،عدل اجتماعی اور فلاح انسانیت پر مبنی معاشرہ آخر ہماری قسمت میں کیوں نہیں۔

متعلقہ عنوان :