سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کی سی ڈی اے کو وفاقی دارالحکومت میں خلاف قواعد پلاٹ حاصل کرنے والے افسروں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت

جمعرات 26 نومبر 2015 18:13

اسلام آباد ۔ 26 نومبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔26 نومبر۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے سی ڈی اے کو وفاقی دارالحکومت میں خلاف قواعد پلاٹ حاصل کرنے والے افسروں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ ایسے پرائیویٹ اسکولوں کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت کی ہے جنہوں نے لیز پر پلاٹ حاصل کر کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کھوکھوں کے خلاف آپریشن کچھ روز کے لئے روک دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ صرف چھوٹے اسٹالز والوں کو تنگ نہ کیا جائے، بڑے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے، ایف آئی اے، سی ڈی اے کے افسروں کے خلاف زیر التواء تمام مقدمات اور انکوائریوں کی تفصیل فراہم کرے۔ وفاقی دارالحکومت میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے طویل اور قلیل المدت اقدامات کئے جائیں۔

(جاری ہے)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کا اجلاس جمعرات کو یہاں پارلیمنٹ لاجز میں ہوا جس کی صدارت چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کی۔ اجلاس میں سینیٹر شاہی سید، سینیٹر یوسف بادینی، سینیٹر سیف الله خان بنگش اور نجمہ حمید کے علاوہ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کے سینئر حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے روزانہ اڑھائی سے تین سو پانی کے ٹینکر فراہم کرتا ہے کیونکہ وفاقی دارالحکومت میں پانی کی 35 فیصد کمی ہے جسے ٹینکروں سے پورا کیا جاتا ہے۔

پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے طویل اور قلیل المدت اقدامات کرنا ہوں گے۔ سی ڈی اے چراہ ڈیم، سملی ڈیم سے پہلے چیک ڈیم اور تربیلا ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی سپلائی کے لئے مختلف منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔ دریائے سندھ سے پانی لینے کی تجویز ہے لیکن یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں حل کیا جا سکتا ہے۔ سندھ کے اس حوالے سے تحفظات ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے لئے پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس سلسلے میں سی ڈی اے قابل عمل تجاویز پر کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ لوگوں نے گھروں میں موٹریں لگا رکھی ہیں اور اپنے حق سے زیادہ پانی حاصل کر رہے ہیں جس پر کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ سی ڈی اے کی طرف سے شہریوں کو نوٹس جاری کرنے کا طریقہ غلط ہے اور اس سے کرپشن کا راستہ کھلتا ہے۔ لوگوں کو بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ دو ماہ میں تین سو سے زائد نوٹس جاری کئے گئے جس پر چیئرمین نے کہا کہ یہ صرف کرپشن کرنے کا طریقہ ہے۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ لوگ موٹریں لگا کر پانی اس لئے حاصل کرتے ہیں کیونکہ انہیں ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتا اس لئے یہ کوئی اتنا سنگین جرم نہیں۔ اگر سی ڈی اے اسلام آباد کے شہریوں کو پانی ضرورت کے مطابق فراہم نہیں کر سکتا تو دور دراز کے علاقوں میں عوام کو صاف پانی کس طرح فراہم کیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں بورنگ کا پانی 400 فٹ سے حاصل کیا جا رہا ہے۔

پانی کی سطح گر رہی ہے۔ کچھ سیکٹرزمیں زیر زمین پانی موجود ہی نہیں ہے۔ سی ڈی اے حکام نے واٹر سپلائی کے حوالے سے پلاننگ کے فقدان کو تسلیم کیا اور کہا کہ اس حوالے سے جلد اقدامات کئے جائیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منال ریسٹورنٹ سی ڈی اے نے خود بنایا تھا، بولی کے بعد ایک پارٹی کو 17 سال کی لیز پر دیا گیا جو اس وقت سوا سات لاکھ روپے ماہانہ ادا کر رہی ہے جبکہ سی ڈی اے نے اس ریسٹورنٹ پر چھ کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔

کمیٹی نے اس سلسلے میں سی ڈی اے سے معاہدے کی کاپی طلب کرلی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مارگلہ ہلز پر منال کے ساتھ واقع ایک اور نجی ہوٹل کے معاملہ کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ سی ڈی اے نے اس کا لائسنس نہیں دیا اور یہ ماحولیات کے حوالے سے ممنوع علاقے میں ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت سے لکڑی کی غیر قانونی کٹائی کی جا رہی ہے جس میں سی ڈی اے کا عملہ ملوث ہے۔

اس حوالے سے بہت سی شکایات ہیں۔ سی ڈی اے صرف بڑے سیکٹروں پر توجہ نہ دے بلکہ جی اور آئی سیکٹروں کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نے وفاقی دارالحکومت کے مختلف سیکٹروں میں سڑکوں، گلیوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 400 ملین کے مزید ٹینڈر جلد جاری کئے جا رہے ہیں۔

نیسکام کے ساتھ مل کر ایل ای ڈی لائٹیں لگائی جائیں گی۔ سی ڈی اے کے پاس بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ اب یہ مسئلہ حل کرلیا گیا ہے۔ اسٹریٹ لائٹس کی بجلی کے بلوں کی مد میں 40 کروڑ روپے ادا کئے ہیں۔ آئیسکو سے کہا ہے کہ ہمیں سب میٹر لگا کر دیئے جائیں تاکہ ہم لم سم ادائیگی کی بجائے میٹر ریڈنگ کے مطابق ادائیگی کریں۔ کمیٹی نے سی ڈی اے کی گاڑیوں کا پٹرول فروخت کرنے کے معاملہ پر سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ اس معاملہ کی تحقیقات کر کے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے 15 ہزار 656 ملازمین میں سے کوئی گھوسٹ ملازم نہیں۔ ملازمین کی حاضری کا بائیومیٹرک سسٹم شروع کیا ہے۔ ڈگریوں کی تصدیق کا عمل بھی مکمل کیا جا رہا ہے۔ ایک ہزار سے زائد افسروں کی ڈگریوں کی تصدیق ہو چکی ہے جنہوں نے ڈگریاں جمع نہیں کروائیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سینیٹر نجمہ حمید نے کہا کہ سی ڈی اے کے کئی ارکان بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ غلط احکامات دینے والے سیاست دانوں کو انکار کیا جائے اور سرکاری افسر غلط احکامات سے انکار کرنے کی روش اختیار کریں۔ کمیٹی نے کہا کہ جس طرح راولپنڈی میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کا ٹھیکہ ایک کمپنی کو دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں بھی اس کامیاب تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس سلسلے میں سی ڈی اے راولپنڈی اور پنجاب حکومت کے حکام سے رابطہ کر کے تجاویز مرتب کرے اور کمیٹی کو آگاہ کرے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ حبیب رفیق نے الحمراء کے نام سے ہاؤسنگ سوسائٹی شروع کی، اب وہ اس کا نام بدلنا چاہتے ہیں جس پر اعتراضات بھی سامنے آئے جن کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ نیب نے برانڈ نیم تبدیل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کمیٹی نے اس معاملہ پر تفصیلی بریفنگ مانگ لی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے 45 افسروں اور اہلکاروں کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کر رہا ہے۔

15 کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 8 عبوری ضمانتوں پر ہیں۔ یہ کارروائی وزارت داخلہ کے احکامات پر کی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ اس سے قبل سی ڈی اے نے جو انکوائریاں مکمل کر کے ایف آئی اے کو بھیجیں، ان پر ایف آئی اے نے اب تک کیوں کارروائی نہیں کی۔ سی ڈی اے کے حکام نے کہا کہ ایف آئی اے نے ہمارے جن افسران کو گرفتار کیا وہ اچھی شہرت کے ہیں جس پر ایف آئی اے حکام نے کہا کہ کارروائی کے لئے فہرست سی ڈی اے سے ہی آئی تھی۔

کمیٹی نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ کمیٹی نے اس معاملہ پر بریفنگ کے لئے ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد کو طلب کرلیا۔ کمیٹی نے کہا کہ ایف آئی اے کو اس انداز میں کارروائی نہیں کرنی دی جائے گی۔ جو پرانی انکوائریاں مکمل ہو چکی ہیں، ان میں جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، ان کو بھی گرفتار کیا جائے۔

کمیٹی نے ایف آئی اے سے سی ڈی اے کے زیر التواء تمام کیسوں اور انکوائریوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور تجاوزات کے خلاف متحرک ہے۔ سی ڈی اے کا دائرہ کار صرف سیکٹروں تک محدود ہے، اس سے باہر دیہی علاقوں میں بلڈنگز کے حوالے سے کوئی ریگولیشنز موجود نہیں۔ کئی کئی منزلہ عمارتیں وفاقی دارالحکومت کے نواح میں بن رہی ہیں۔

اس حوالے سے سی ڈی اے بورڈ نے نئے قوانین اور ریگولیشنز منظور کی ہیں اور الگ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ سی ڈی اے اس حوالے سے جلد اقدامات کرے۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ ادارے میں ٹاؤن پلانرز کی بھرتیوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اہل اسٹاف موجود نہیں ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی دارالحکومت میں پیدائشی سرٹیفیکیٹس کے اجراء کے نظام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ تصدیق کے بغیر پیدائش سرٹیفیکیٹ کے اجراء کا نظام درست نہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں سی ڈی اے کے علاوہ 24 ادارے برتھ سرٹیفیکیٹس بنا رہے ہیں۔ سب سے بہتر نظام سی ڈی اے کا ہے جو نادرا سے منسلک ہے۔ ہر مہینے 900 بچوں کو رجسٹر کیا جاتا ہے۔ یونین کونسلوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو متعلقہ یونین کونسلوں میں ہی رجسٹر کیا جاتا ہے۔ نادرا کی تصدیق کے بغیر سی ڈی اے سے کوئی برتھ سرٹیفیکیٹ نہیں بن سکتا۔

کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ کھوکھوں کے خلاف مزید آپریشن کچھ دن کے لئے روک دیا گیا ہے۔ رہائشی عمارتوں کا خلاف قاعدہ استعمال رکوایا جائے گا۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ چھوٹے اور غریب لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے بااثر اور بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جی سیون مرکز میں فوڈ پارک کے پلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا، آٹو ورکشاپس والوں نے آئی ٹین میں الاٹ کئے گئے پلاٹ آگے بیچ دیئے اور یہاں سے نہیں گئے۔

اس حوالے سے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ اس معاملہ میں سی ڈی اے کے اپنے لوگ ملوث ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ سالانہ دو دو اڑھائی اڑھائی ارب روپے فیس وصول کرنے والے پرائیویٹ اسکولوں کو معمولی پیسوں پر بڑے بڑے پلاٹ الاٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے عوامی بہبود کے نام پر یہ پلاٹ لے کر کاروبار جما لیا۔ سی ڈی اے سے اگر انہوں نے کوئی ریلیف لیا ہے تو یہ ریلیف عوام کو بھی دیا جائے جس پر سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ اب یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے اور صرف کمرشل لیز پر ہی جگہ فراہم کی جاتی ہے۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ جن اسکولوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی ان کے پلاٹ کینسل کئے جائیں۔ کمیٹی نے کنونشن سینٹر کے قریب زیر تعمیر ایک بلند و بالا عمارت کے حوالے سے بھی تفصیلات طلب کرلیں اور سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ محض ہوٹلز کے لئے پلاٹ الاٹ کرنے کی بجائے کمرشل عمارتوں کی اجازت دینے کے حوالے سے غور کرے اور اس بارے میں ایک تقابلی رپورٹ بنا کر کمیٹی کو پیش کی جائے۔

کمیٹی نے وفاقی دارالحکومت کے ایک سیکٹر میں الاٹ کئے گئے پلاٹ دوسرے سیکٹر میں ٹرانسفر کرنے کی تفصیل بھی طلب کرلی جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا، اب نہیں ہو رہا۔ کمیٹی نے ٹرانسفر کرائے گئے تمام پلاٹوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کمیٹی نے کہا کہ ان لوگوں کے نام بھی سامنے آنے چاہئیں جنہوں نے 500 کی بجائے خلاف قواعد 600 گز کے پلاٹ الاٹ کرائے۔ اس کے علاوہ ڈیپوٹیشن پر آ کر ناجائز طریقے سے پلاٹ حاصل کرنے والوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ گزشتہ تین سال میں کوئی پلاٹ الاٹ نہیں کیا گیا۔ جو پہلے الاٹ کئے گئے تھے وہ بھی کینسل کئے گئے ہیں۔ کمیٹی نے پہلے سے ڈویلپڈ سیکٹرز میں الاٹ کئے گئے پلاٹوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

متعلقہ عنوان :