سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کے خلاف عدالتی احاطے میں صحافیوں پر تشدد پر سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف درخواست واپس لینے کے باعث نمٹا دی

جمعرات 26 نومبر 2015 13:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 نومبر۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی سندھ و دیگر پولیس افسران کے خلاف عدالتی احاطے میں صحافیوں و دیگر پر تشدد پر سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف دی گئی درخواست واپس لینے کی بناء پر نمٹا دی گئی۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کا کلچر ہے کہ جب کوئی بڑا جرم میں پھنستا ہے تو چھوٹوں کی قربانی دے دی جاتی ہے۔

پورے ملک نے دیکھا صحافیوں پر تشدد کیا گیا اور آئی جی سندھ فرماتے ہیں کہ توہین عدالت کے لئے مواد ہی ناکافی ہے۔ انہیں یہ نظر نہیں آیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے درخواست بند کر دیئے گئے تھے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ویسے بھی مقدمہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مداخلت کر کے اس پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتے بہتر ہے درخواست واپس لے لیں بصورت دیگر خارج کر دینگے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز مقدمے کی سماعت کے دوران دیئے ہیں اس دوران آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پولیس افسران پر فرد جرم عائد کرنے سے قبل انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس تک نہیں دیا گیا۔ پولیس افسران نے غیر مشروط معافی نامے بھی عدالت میں جمع کرائے تھے ان کو غور کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا نہ ہی ایسا قابل ذکر کوئی مواد موجود تھا کہ جس کی بنیاد پر آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی۔

عدالت سے استدعا ہے اس فرد جرم معاملے کو ختم کیا جائے اور معافی نامے قبول کئے جائیں۔

جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں آپ نے شاید وہ وقوعہ نہیں دیکھا جس کو پورے ملک نے دیکھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ وقوعہ کے وقت سندھ ہائیکورٹ کے دروازے بند تھے ایک افراتفری کا عالم تھا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

صحافیوں پر تشدد کو تو پورے ملک نے براہ راست دیکھا آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ توہین عدالت کے حوالے سے مواد موجود ہیں ابھی ہائیکورٹ میں چلنے والا مقدمہ ابتدائی سماعتوں پر ہے مداخلت نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اس موقع پر کوئی ابزرویشن دی تو اس سے سندھ ہائیکورٹ میں چلنے والے مقدمے پر براہ راست اثرات مرتب ہونگے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جن پولیس افسران پر فرد جرم عائد کی جانی ہے ان میں سے ایک تو لاہور میں تھا سندھ میں وہ موجود ہی نہیں تھے جس پر عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم مداخلت نہیں کرینگے آپ درخواست واپس لیتے ہیں یا ہم خارج کر دیں اس پر فاروق ایچ نائیک نے چاروناچار درخواست واپس لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے درخواست واپس لینے بنا پر نمٹا دی واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں اور دیگر لوگوں پر تشدد کیا گیا تھا جس پر سندھ ہائیکورٹ نے سندھ آئی جی اور دیگر پولیس افسران پر فرد جرم عائد کرنا تھی اس فرد جرم عائد کرنے کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف آئی جی سندھ اور دیگر افراد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔