خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا برتاؤ کسی بھی مذہب ، ریاست و معاشرے میں قابلِ قبول نہیں، ڈاکٹر نادیہ عزیز

بدھ 25 نومبر 2015 22:55

سرگودھا۔25 نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔25 نومبر۔2015ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر نادیہ عزیز نے کہا ہے کہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا برتاؤ کسی بھی مذہب ، ریاست اور معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔خواتین پر تشدد بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس حوالے سے عالمی سطح پر خواتین پر تشدد کا عالمی دن منایا جاتاہے اور اس دن کے منانے کا مقصد بھی خواتین کو شعوردلا کے بااختیار بنانا اور گھریلو تشدد سے نجات دلا کر ان کو ہر سطح پر اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے تانگھ وسیب کے زیرِ اہتمام خواتین پر تشدد کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خواتین کو مکمل طور پر بااختیار بنانا وقت کااہم تقاضا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومتِ پنجاب نے خواتین کو ہر سطح پر بااختیار بنانے کے لیے جامع اقدامات کئے ہیں جس کا مظہر حکومتی بورڈز میں خواتین کا کوٹہ 33فیصد کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں بھی خواتین کا کوٹہ 5فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کر دیا گیا ہے اور وراثت میں بھی خواتین کی آنر شپ کولازم کر دیا گیا ہے ۔ نوکری پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے پنجاب اسمبلی نے قانون سازی بھی کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کی خواتین باصلاحیت ہیں اور حکومت انہیں ہر سطح پر مکمل وسائل کی دستیابی کے لیے تمام وسائل برؤے کار لا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد ایک لمحہ فکریہ ہے جس کے لیے قومی اور عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے کم عمری کی شادی ،ونی اور وٹہ سٹہ کی فرسودہ روایات کی روک تھام کے لیے قوانین بھی بنائے گئے ہیں ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ممبر مشاورتی کونسل ، ہیومن رائیٹس اینڈ مینارٹی افیئرزپاکستان روبینہ فیروز بھٹی نے کہا کہ خواتین میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین ہی بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکتی ہیں معاشرے میں کم عمری کی شادی گھریلو تشدد کا ایک اہم سبب ہے خواتین پر تشدد سے جہاں معاشرے کے اند ر ایک بگاڑ آتاہے وہاں پر اس کے اثرات سماج کے دیگر حصوں پر بھی پڑتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں 35فیصد عورتوں اور لڑکیوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتاہے روبینہ فیروز بھٹی نے بتایا کہ دنیا بھر میں جن بچیوں کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے جس سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں اور اس کے علاوہ انہیں گھریلو تشدد اور زچگی کے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑاہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال عالمی سطح پر تعلیم سب کے لیے جا نعرہ منتخب کیا گیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو آگاہی دی جائے تاکہ ان کو پتہ چل سکے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اس ضمن میں اقوامِ متحدہ نے مختلف اداروں سے مل کر 25نومبر سے 10دسمبر2015ء تک سولہ روزہ آگاہی مہم کا دنیا بھر میں آغاز کردیا گیا ہے تاکہ خواتین میں شعور بیدار کیا جا سکے۔